اسلام میں خدمت خلق کا تصور
از:– — نجم الھدیٰ قاسمی، آسام
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
خدمت خلق یعنی اللہ تعالی کی رضامندی و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بلا کسی اجرت اور صلے کے خلق خدا کے کام آنا۔ اسلام اللہ تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ دین ہے۔ اور اس دین میں سب سے زیادہ کامیاب انسان وہ ہے جو اپنے ایمان اور اعمال کے ساتھ لوگوں کے لیے زیادہ مفید اور کار آمد ہو۔ لفظ انسان مشتق ہے اُنس سے جس کے معنی پیار اور محبت کےہیں، اسی لیے ایک معاشرے کی صحت اور کامیابی کی بنیاد انسان کی انسانیت اور ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور رواداری پر موقوف ہے۔
دین اسلام میں خدمت خلق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ نے اپنے کرب و الم کا تذکرہ اپنی شریک حیات ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کیا ۔ جسے سن کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا گویا ہوئیں کہ آپ کو اللہ تعالی ہرگز ضائع نہیں کرے گا، آپ تو رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، بے سہارا لوگوں کی مدد کرتے ہیں، مہمانوں کی خاطر تواضع کرتے ہیں اور آسمانی حوادث میں لوگوں کا تعاون کرتے ہیں۔ یہ پانچوں خصوصیات جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ذکر کیا ہے وہ سب خدمت خلق کے مختلف پہلوؤں سے مربوط ہیں جو بدنی اور مالی تعاون پر مشتمل ہیں۔
چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے "یا ایہا الذین آمنوا ارکعوا واسجدوا واعبدوا ربکم وافعلوا الخیر لعلکم تفلحون” (سورہ حج، ۷۷۔) اے ایمان والو! تم رکوع اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو تاکہ تم فلاح پا سکو۔ آیت کریمہ میں ایمان والوں کو نماز کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرنے کا حکم وارد ہوا ہے، یعنی جو کام اللہ تعالی نے کرنے کا حکم دیا ہے انہیں کرو اور جن سے منع فرمایا ہے ان سے باز رہو۔ آگے فرماتے ہیں کہ ”نیک کام کرو” حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد صلہ رحمی کرنا اور دیگر اچھے اخلاق ہیں۔ صلہ رحمی کا مطلب یہ ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ تعلق جوڑنا، ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اپنی حیثیت کے مطابق ان کا مالی تعاون کرنا، ان کی خدمت کرنا اور ان کے تئیں ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات سے سرشار رہنا۔
جب مومن نے رکوع سجدہ کر لیا اور اپنے رب کی عبادت بھی کر لی جو انتہائی جامع ہے۔ عبادت کا لفظ عموما سارے احکام کو شامل ہے روزہ رکھنا، حج کرنا، زکوۃ دینا وغیرہ سارے کے سارے عبادت ہیں۔ پھر آگے فرماتے ہیں نیک کام کرو، اب کون سا خیر اور نیک کام باقی رہ جاتا ہے جن کے لیے یہ اضافی الفاظ لائے گئے، ”وافعلوا الخیر لعلکم تفلحون۔” اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد خدمت خلق ہے۔ عبادت کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی اپنے مال سے زکوۃ دے دے، روزہ رکھ لے، حج کر لے ان سب سے عبادت و اطاعت کا حق ادا ہو جاتا ہے، اب اس سے زیادہ مال خرچ کرنا غریبوں کے لیے مسکینوں کے لیے بھوکوں کے لیے حاجت مندوں کے لیے، یہ سب گویا ایک کار خیر اور خدمت خلق ہے ۔
اسلام کی خوبصورتی اور ایک اضافی شان یہ ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”خیر الناس من ینفع الناس“ بہترین لوگ وہ ہیں جو لوگوں کو فائدہ پہنچائیں۔ ایک دوسری حدیث میں ہے ”الخلق عیال اللہ“ کہ تمام مخلوق اللہ کے کنبے کے مانند ہیں ۔ اگر کسی کو اللہ سے محبت ہوگی تو اس کے کنبے سے بھی محبت ہوگی جو ایک فطری بات ہے۔ لوگوں کے ساتھ محبت کرنا حسن سلوک کرنا ہے اچھے برے وقت میں ان کے ساتھ رہنا اور حتیٰ المقدور ان کی نصرت کرنا، حسن سلوک تقاضا ہے۔ روز قیامت اللہ تعالی اپنے بندوں سے شکوہ کریں گے۔ اے میرے بندے! میں بھوکا تھا، میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو نے مجھے نہیں دیا۔ میں ننگا تھا، میں نے تجھ سے کپڑا مانگا تو نے مجھے نہیں دیا۔ بندہ کہے گا سبحانک یا اللہ! تو تو ان سب چیزوں سے برتر ہے ، تمام چیزوں سے بےنیاز ہے کہ تجھے بھوک لگے کپڑے کی ضرورت ہو۔ اللہ کہے گا میرا فلاں بندہ بھوکا تھا تجھ سے کھانا مانگا تو نے نہیں دیا، میرا فلاں بندہ ننگا تھا تجھ سے کپڑا مانگا تو نے نہیں دیا۔ وہ میں ہی تو تھا۔
اسی طرح بے شمار احادیث اسی مضمون کی ترغیب اور فضیلت کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں۔ بخاری اور مسلم کی ایک حدیث ہے۔ جو شخص بیواؤں اور مسکینوں کے لیے کوشش کرنے والا ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے میدان جہاد میں بھاگ دوڑ کرنے والا ہو، آگے راوی فرماتے ہیں کہ میرا یہ بھی خیال ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص اس شخص کی طرح ہے کہ رات بھر اتنی عبادت کرے کہ کبھی تھکے نہیں اور اتنے روزے رکھے کہ کبھی افطار نہ کرے یعنی روزانہ روزے رکھے۔ چنانچہ میدان جنگ میں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا، رات بھر عبادت کرنے والا، اور مسلسل روزے رکھنے والا یہ سب ایک طرف اور بیواؤں، یتیموں، مسکینوں کے لیے روزی روٹی اور دیگر ضروریات اور اخراجات کا انتظام کرنے والا ایک طرف، فرمایا کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ یہیں سے اس عمل کی اہمیت اور فضیلت کا اندازہ لگایا جا سکتاہے۔
ہمارے معاشرے میں ایک عمومی سوچ اور ایک طرح کا رواج بن چکا ہے کہ جب بھی ہم اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے لیے سوچتے ہیں تو سب سے پہلے ہمارے ذہن میں مساجد اور مدارس ہی آتے ہیں۔ بے شمار پیسے مساجد اور مدارس میں جمع ہیں۔ کمیٹیاں بدل رہے ہیں اور پیسے اِدھر سے اُدھر، اُدھر سے اِدھر ہو رہے ہیں۔ اور ایک دوسرے پر مانو احسان جتا رہے کہ ہمارے ٹائم میں یہ ہوا ہمارے ٹائم میں وہ ہوا۔ مساجد عالیشان ہیں عمارتیں پرکشش اور بے شمار ہیں، لیکن اسی مسجد میں آنے والا پھٹے پرانے کپڑے میں آرہا ہے، چند گنے چنے لوگوں سے زیادہ نمازی مسجد میں نہیں ہیں۔ اسی مسجد کے امام صاحب کی تنخواہ اتنی ہے کہ مہینے کے اختتام سے پہلے مقروض ہوجاتا ہے۔ اُدھر اُسی بستی میں اُسی مسجد کے بازو میں مساکین بیواؤں، غرباء اور مختلف امراض کے شکار بھائی بہن ہیں جو عیسائیوں سے مدد لے رہے ہیں اور اپنے دین و ایمان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ وہاں ہمارا ذہن ہی نہیں جاتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ سے ہمارا ذہن مساجد اور مدارس کی طرف ہی جاتاہے جبکہ ہمارا پڑوسی بھوکے سو رہا ہوتاہے، ہمارے معاشرہ کو اس بات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ مسجد اور مدرسے کے ساتھ ساتھ دعوی سینٹر بھی ہونا چاہیے، چیریٹیبل ہاسپٹل بھی ہونا چاہیے، یتیم خانے، مسکینوں اور غرباء کے لیے وظیفے کا سسٹم بھی ہونا چاہیے، بے روزگار نوجوانوں کے لیے روزی روٹی کے راستے بھی فراہم کرنا چاہیے، بھوکوں کے لیے کھانے پینے کا انتظام، ننگوں کے لیے کپڑے، گھر وغیرہ کا انتظام بھی کرنا چاہیے۔
آج کل کے اس ترقی یافتہ زمانے میں ولادت کا سسٹم ایک قابل غور مسئلہ بن چکا ہے۔ ہاسپٹل میں ولادت کا عمل ایک عام ضرورت بن چکی ہے، جہاں مرد خواتین کے پردے سے متعلق کوئی سروکار نہیں۔ اکثر مسلمان سرکاری ہاسپٹل میں جاتے ہیں، جہاں ان پر ایکسپریمنٹس اور ایکسپیرینسز کیے جاتے ہیں۔ کیا ہمارے معاشرہ میں ایک ایسا ہاسپٹل نہیں ہونا چاہیے جو ہمارے مالدار مسلمان چلائیں؟ جہاں ہم فنڈنگ کریں اور خواتین ڈاکٹرز ہوں، ہائلی پیڈ اور ماہر ڈاکٹرز ہوں جہاں پردہ کا مکمل نظم ہو۔
اسی لیے ضرورت مند انسان کی ہر قسم کی ضروریات کو پوری کرنا خدمت خلق کا اہم ترین حصہ قرار دیاگیا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ دوسرے پر ظلم کرتا ہے نہ اسے دشمن کے سپرد کرتا ہے، جو مسلمان اپنے بھائی کی ضرورت میں کام ائے گا، اللہ تعالی اس کی ضرورت میں کام ائے گا۔ اور جو کسی مسلمان کے رنج و غم کو دور کرے گا ،اللہ تعالی روز قیامت میں اس کی مصیبت کو دور کرے گا۔ اور جو کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے گا اللہ تعالی قیامت کے دن اس کے عیب کو چھپائے گا” (بخاری و مسلم)
چنانچہ انہیں جذبات کے ساتھ اگر خدمت خلق کو بطور عبادت انجام دیا جائے تو اللہ کی رضا و خوشنودی کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ایک دوسرے کے لیے باہمی احترام اور محبت پیدا ہو گی۔
خدمت خلق ہے، عبادتوں میں افضل
جو انجام دے، ہے وہ جنت کا اھل