مہاوکاس اگھاڑی یا مہایوتی؟ مہاراشٹر میں کون لے جائے گا بازی
محمد توقیر رحمانی
مہاراشٹر میں جاری اسمبلی انتخابات عروج پر ہیں، اور تمام سیاسی جماعتیں بھرپور طور پر سرگرم عمل ہیں۔ اگرچہ مہاراشٹر اسمبلی کی کل نشستیں تو صرف 288 ہیں، لیکن نامزدگی کی آخری تاریخ ختم ہونے کے بعد، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 9,229 امیدوار میدان میں اترچکے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتیں اور بے شمار آزاد امیدوار اپنی قسمت آزمانے کے لیے سیاسی میدان میں قدم رکھ چکے ہیں۔ اس انتخاب میں دو بڑے اتحادوں کے درمیان سیدھا مقابلہ ہے۔
فی الحال، جیت کس کے حصے میں آئے گی، اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ دو بڑی علاقائی سیاسی جماعتیں، شیو سینا اور این سی پی، بھی بھرپور طور پر اپنی طاقت کا لوہا منوانے میں لگی ہیں، لیکن بدقسمتی سے، گزشتہ انتخابات کے بعد یہ جماعتیں اختلافات کا شکار ہو کر چار حصوں میں بٹ چکی ہیں۔ اس تقسیم سے دیگر جماعتوں کو فائدہ پہنچا اور وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئیں۔ اس بار، ایک طرف شرد پوار اور ادھو ٹھاکرے کی سربراہی میں این سی پی اور شیو سینا کانگریس کے ساتھ سرگرم ہیں، جبکہ دوسری طرف اجیت پوار کی قیادت میں این سی پی اور ایکناتھ شنڈے کی سربراہی میں شیو سینا بی جے پی کے ساتھ مل کر میدان میں ہیں۔ ان اتحادی جماعتوں میں سے ایک نے اپنے اتحاد کا نام "مہاوکاس اگھاڑی” رکھا ہے، جب کہ دوسری نے "مہایوتی”۔ بظاہر یہ اتحاد مضبوط ہے، لیکن داخلی اختلافات اور نظریاتی انتشار سے بھی دوچار ہے۔
سیٹوں کی تقسیم کا عمل مکمل ہو چکا ہے، اور اس کا ایک مختصر جائزہ یہاں دلچسپی کا باعث ہوگا۔
مہاراشٹر اسمبلی انتخابات 2024 میں کل نامزدگیوں کی تعداد 10,900 تھی، جن میں سے 9,229 امیدواروں کی نامزدگیاں منظور کی گئیں۔ غیر منظور شدہ امیدواروں کی تعداد 1,639 ہے، جبکہ مقابلے سے اپنا نام واپس لینے والوں کی تعداد صرف 15 ہے۔
نامزدگی کی آخری تاریخ کے بعد سامنے آنے والی صورتحال سے یہ پتا چلتا ہے کہ کانگریس پارٹی نے مجموعی طور پر 102 حلقوں میں اپنے امیدوار نامزد کیے ہیں، جبکہ اس کی حلیف جماعت این سی پی (شرد پوار گروپ) نے 87 حلقوں سے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ کانگریس کی دوسری حلیف، شیو سینا (ادھو ٹھاکرے گروپ)، نے 96 حلقوں سے قسمت آزمارہی ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے حلیفوں میں سے پیزنٹس اینڈ ورکرز پارٹی آف انڈیا 6 سیٹیوں پر، مارکسسٹ 5، سماج وادی پارٹی 2 اور کمونسٹ پارٹی آف انڈیا صرف ایک سیٹ پر میدان انتخاب میں ہیں۔
دوسری جانب، بی جے پی نے 148 حلقوں میں اپنے امیدواروں کو اتارا ہے، جبکہ اس کی حلیف این سی پی (اجیت پوار گروپ) کے 52 اور دوسری حلیف شیو سینا (شنڈے گروپ) کے 80 امیدوار میدان میں ہیں۔ ان کے دوسرے حلیفوں میں سے جان سراجیا شکتی 2 سیٹوں پر جبکہ اٹھاؤلے، راشٹریہ یوا سوابھیمان پارٹی اور راجارشی شاہو وکاس اگھاڑی ایک ایک سیٹ پر لڑ رہے ہیں۔ (سیٹوں کی تقسیم کی یہ تعداد ویکیپیڈیا کے حساب سے ہے۔)
اس کے ساتھ، مختلف چھوٹی جماعتیں بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ اس انتخابی معرکے میں حصہ لے رہی ہیں۔ مزید یہ کہ، ان سیاسی حلقوں میں اثر و رسوخ رکھنے والے آزاد امیدواروں کی بھی خاصی تعداد ہے، جو بڑی جماعتوں کے لیے چیلنج بن سکتے ہیں۔
این سی پی اور شیو سینا کا دو دو گروہوں میں تقسیم ہونا، دونوں جماعتوں کے لیے نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے۔ الیکشن کے بعد کی صورتحال کے بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ تاہم، مہاوکاس اگھاڑی کا پلڑا بھاری دکھائی دے رہا ہے اور امکانات ہیں کہ جیت اسی کی ہو۔ لیکن مہایوتی بھی مضبوط پکڑ اور پر اعتمادی کے ساتھ پنجا آزمائی میں ہے۔ اگرچہ مہایوتی میں بی جے پی کے ساتھ دو حلیف گروپوں کے قائدین وقتی مفاد کی خاطر بی جے پی کے ساتھ ہیں، لیکن نظریاتی اختلافات کے باعث یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ اتحاد کب تک قائم رہے گا۔ کسی بھی وقت سیاسی توازن بگڑسکتا ہے اور حکومت میں تبدیلی کا امکان نظر آ رہا ہے۔ عوام کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہورہا ہے کہ این سی پی اور شیو سینا کے منقسم دھڑوں میں سے کس پر اعتماد کیا جائے اور کون سی جماعت عوام کے مفاد میں بہتر ثابت ہوگی۔ یوں لگتا ہے کہ اس بار کا انتخاب نہایت دلچسپ اور سخت مقابلے کا ہوگا۔ یاد رہے کہ نامزدگی واپس لینے کی آخری تاریخ 4 نومبر ہے، جبکہ رائے دہی 20 نومبر کو ہوگی اور نتائج کا اعلان 23 نومبر کو کیا جائے گا۔
اسی دوران، سابق وزیر داخلہ انیل دیشمکھ نے اپنی تصنیف "ڈائری آف اے ہوم منسٹر” منظر عام پر لا کر مہایوتی، خصوصاً بی جے پی اور نائب وزیر اعلیٰ دیوند فرنویس کو پریشانی میں ڈال دیا ہے۔ کتاب میں نائب وزیر اعلی پر سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں، جس سے سیاسی صورتحال مزید پیچیدہ ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔