ماہ رمضان میں IPL کی آمد اور مسلمان نوجوانوں کی غفلت
از____محمد توقیر رحمانی
انسانی فطرت میں راحت و مسرت کی جستجو ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ زندگی کے مسلسل تقاضے، فکری مشغولیات اور روزمرہ کی ذمہ داریاں اگر کسی توازن کے بغیر گزریں تو طبیعت میں جمود، پژمردگی اور تھکن پیدا ہو جاتی ہے۔ دین اسلام، جو فطرتِ انسانی کے عین مطابق ہے، نے جہاں زندگی کے سنجیدہ و فکری پہلوؤں پر زور دیا ہے، وہیں تفریحِ طبع اور ذہنی و جسمانی آسودگی کے پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ اگر روح کو فکری بالیدگی کی ضرورت ہے تو جسم کو نشاط و توانائی بھی درکار ہے، اور اگر عقل کو غور و فکر کا میدان چاہیے تو جذبات کو متوازن تفریح بھی مطلوب ہے۔ چنانچہ اسلام نے ایسی تفریحات کو نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ ان کی ترغیب بھی دی جو جسمانی و ذہنی صحت کی ضامن ہوں اور فکری ارتقا کا ذریعہ بھی بنیں۔
دورِ نبوی ﷺ میں تفریح محض وقت گزاری یا لہو و لعب کا نام نہ تھا، بلکہ یہ ایک اجتماعی سرگرمی تھی جس کا مقصد انسانی جذبات کو اعتدال پر رکھنا، جسمانی ورزش کو فروغ دینا، ذہنی دباؤ کو کم کرنا اور سماجی تعلقات کی مضبوط کرنا تھا۔ ان تفریحات میں فکری یکجہتی، اجتماعی شعور اور قوتِ برداشت کا حسن جھلکتا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے جہاں عبادت و ریاضت کی تعلیم دی، وہیں تفریحی سرگرمیوں کی عملی ترغیب بھی دی تاکہ امت کسی ایک انتہا کی شکار نہ ہو۔ اس کی چند روشن مثالیں درج ذیل ہیں:
1. دوڑ کا مقابلہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ دوڑ لگایا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ وہ جیت گئیں، پھر کچھ عرصے بعد جب ان کا جسم بھاری ہو گیا تو نبی کریم ﷺ جیت گئے اور فرمایا: "یہ اُس جیت کا بدلہ ہوا۔” (سنن ابی داؤد: 2578)۔
2. حبشیوں کا نیزہ بازی کا کھیل:
مسجد نبوی میں کچھ حبشی صحابہ نیزہ بازی کا کھیل پیش کر رہے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی اس کھیل کو دیکھنے کی اجازت دی اور خود ان کے لیے کھڑے رہے تاکہ وہ تسلی سے دیکھ سکیں۔ (صحیح بخاری: 950، صحیح مسلم: 892)۔
3. گھڑ دوڑ اور تیر اندازی:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "گھوڑے، اونٹ، اور تیر اندازی میں مقابلہ کرو، اور میں تمہیں تیر اندازی کو لازم پکڑنے کی تاکید کرتا ہوں، کیونکہ یہ سب سے بہتر کھیل ہے۔” (سنن ابی داؤد: 2513)۔
یہ تمام مثالیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ تفریح صرف جائز ہی نہیں بلکہ مستحسن بھی ہے، بشرطیکہ وہ جسمانی و ذہنی نشوونما کا ذریعہ ہو اور اخلاقی حدود میں رہے۔
لیکن آج تفریح کا وہ حسین تصور مسخ ہو چکا ہے۔ جو تفریح ایک صالح سماج کی تعمیر کا ذریعہ تھی، وہ آج بے مقصدیت، غفلت اور روحانی زوال کا سبب بن چکی ہے۔ یہی حال کھیلوں کا بھی ہے۔ تفریح طبع اور کھیل کے سارے اقسام صرف موبائل تک ہی سمٹ کر رہ گئے ہیں۔ کھیل اب صحت و توانائی کے لیے نہیں، بلکہ بے قابو جذبات، وقت کے زیاں، اور دینی و اخلاقی انحطاط کی علامت بنتے جا رہے ہیں۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ سال بھر میں کئی کھیلوں کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں، مگر گذشتہ چند سالوں سے انڈین پریمیئر لیگ (IPL) کا انعقاد مسلسل رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں کیا جا رہا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ مسلم نوجوان، جنہیں اس مہینے میں عبادت، روحانی ترقی اور تزکیۂ نفس پر توجہ دینی چاہیے، وہ کھیل کے دیوانے ہو کر فرائض اور سنن سے بے پرواہ ہو جاتے ہیں۔
یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ رمضان، جو نزولِ قرآن کا مہینہ ہے، وہ ہمیں ٹی وی اسکرینوں کے سامنے قید کر دیتا ہے؟ نوجوان تراویح جیسے عظیم عمل کو ترک کر رہے ہیں، یا اگر مسجد میں آ بھی گئے تو رکوع و سجود کے درمیان موبائل پر اسکور چیک کرنے میں مشغول ہیں۔ یہ غفلت محض وقتی نقصان نہیں، بلکہ روحانی زوال اور ایمانی کمزوری کی علامت ہے۔
کھیل ایک حد تک تفریح ہے، مگر جب یہی کھیل مسجد کے تقدس کو پامال کرنے لگے، جب یہی تفریح عبادات میں رکاوٹ بننے لگے یا رمضان المبارک کے عبادات واعمال میں رخنہ ڈالنے لگے، جب یہی مشغلہ ہماری فکری و دینی ترجیحات کو بدلنے لگے، تو یہ تفریح نہیں، بلکہ بگاڑ ہے۔
نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ کھیل کے حقیقی فلسفے کو سمجھیں۔ میدان میں دوڑنا، جسمانی صحت کا خیال رکھنا، سماجی روابط کو مضبوط کرنا – یہ سب مثبت سرگرمیاں ہیں۔ لیکن اگر کھیل صرف ایک نشہ بن جائے، وقت کا قاتل بن جائے، یا دینی حمیت کو مجروح کرنے لگے، تو یہ ایک ذہنی و فکری بیماری ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنے رجحانات پر نظر ثانی کریں۔ رمضان جیسا قیمتی مہینہ لغویات کے لیے نہیں، بلکہ ایمان کی تجدید کا وقت ہے۔ اگر کھیل ہی کھیلنا ہے تو میدان میں اتریں، اپنی جسمانی طاقت بڑھائیں، صحابہ کرام کے کھیلوں سے سبق لیں، لیکن مسجد اور عبادات کو IPL کی نذر نہ کریں۔
کھیلنا منع نہیں، مگر حد سے تجاوز خطرناک ہے۔ تفریح لازمی ہے، مگر مقصدیت کے ساتھ۔ رمضان کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اپنا وقت زیادہ سے زیادہ عبادات میں گزاریں اور ایسے ہر عمل سے اجتناب کریں جو ہماری آخرت کے نقصان کا سبب بنے۔
اب رمضان المبارک کے صرف چند ایام ہی باقی رہ گئے ہیں۔ چنانچہ، یہ وقت ہے کہ ہم جاگیں، اپنی ترجیحات درست کریں، اور عبادت کو کھیل پر قربان کرنے کی روش سے باز آئیں۔ کیونکہ اگر ہم نے اپنے دل کو دنیا کے کھیلوں میں الجھائے رکھا اور آخرت کی تیاری نہ کی، تو ممکن ہے کہ ہم اس مہلت سے محروم ہو جائیں جو اللہ نے ہمیں رمضان کی صورت میں عطا کی ہے۔