ٹریل بلیزر: فکر، ایمان و سائنس کا سنگم
از____ محمد توقیر رحمانی
لیکچرر: مرکز المعارف، ممبئی
زندگی کی راہیں جب اندھیری ہونے لگتی ہیں تو سب سے پہلے انسان کی بصیرت دھندلانے لگتی ہے۔ صحیح وقت پر اگر سمت دکھانے والا نہ ہو تو دل تذبذب میں الجھ جاتا ہے، اور وہی تردد رفتہ رفتہ مایوسی کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے۔ پھر مایوسی انسان کے فیصلوں میں زہر گھول دیتی ہے۔ وہ قدم جو تدبیر کے ساتھ اٹھنا چاہیے تھا، تعجیل اور اضطراب کا شکار ہو کر ٹھوکر بن جاتا ہے۔ عمر کے ساتھ انسان کا شعور بھی بڑھتا ہے، لیکن یہ اضافہ خودبخود نہیں ہوتا؛ جیسے جسم کو نشوونما کے لیے متوازن غذا کی ضرورت ہوتی ہے، ویسے ہی ذہن و دل کو بھی فکری اور اخلاقی غذا کی حاجت رہتی ہے۔ اگر انہیں محروم رکھا جائے تو جسم کی طرح عقل بھی کمزور ہو جاتی ہے، اور کمزور عقل سب سے خطرناک مخلوق بن جاتی ہے۔ ایسی عقل جو آزاد نہیں بلکہ آوارہ ہو، جو بامقصد نہیں بلکہ بیکار ہو۔
ایسا شخص پھر اپنے وجود کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کا بوجھ بن جاتا ہے۔ اس کی حرکات میں شرارت کا زہر اور اس کی سوچ میں بغاوت کی بو آ جاتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ سکون یافتہ فضا میں اضطراب کے بادل چھا جاتے ہیں، اور معاشرہ اپنی ہی اولاد سے نجات کا خواہاں ہونے لگتا ہے۔ ایسے وقت میں ان افراد کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جن کے دل بیدار اور نظر روشن ہو جو بھٹکے ہوئے ذہنوں کے قریب جا کر انہیں ٹوٹنے سے پہلے سنبھال لیں، جو شورِ جنون میں اعتدال کی صدا بلند کریں، اور جن کی موجودگی ہی روشنی کا استعارہ بن جائے۔
یہی وہ لمحہ ہے جب انسان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اگر صلاحیتوں کو بیدار کرنے کا سلیقہ نہ سکھایا جائے تو وہ خزانے بن کر بھی بیکار رہ جاتی ہیں۔ ٹریل بلیزر اسی احساس سے جنم لینے والا ایک عملی قدم ہے، ایک ایسا پلیٹ فارم جو محض تربیت نہیں دیتا بلکہ سوچ کی تشکیل، نظر کی تہذیب، اور شخصیت کی تعمیر کا فریضہ انجام دیتا ہے۔
یہ سہ روزہ ورکشاپ اپنی ساخت میں مختصر سہی، مگر تاثیر میں ایک ہمہ گیر انقلاب رکھتی ہے۔ اس کے ہر سیشن میں انسان کو خود اپنے اندر جھانکنے کی دعوت دی جاتی ہے؛ اس کے ذہن کی تہوں میں چھپی ہوئی قوتوں کو روشنی میں لایا جاتا ہے، اور اسے بتایا جاتا ہے کہ یہ قوتیں اگر درست سمت میں نہ بہیں تو طوفان بن جاتی ہیں۔

اس ورکشاپ کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں ایک دور رہنے والا دل بھی قریب آجاتا ہے۔ وہ فرد جو اپنے دین کی حقیقت سے ناآشنا ہے، اسے ایسے انداز میں سمجھایا جاتا ہے کہ دلیل اور تجربہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ پیچیدہ افکار کو اتنی سادگی سے پیش کیا جاتا ہے کہ دل ان پر یقین اور ذہن ان سے انکار نہیں کر پاتا۔ یہاں انسان کو بتایا جاتا ہے کہ وہ کون ہے، کیوں پیدا ہوا، اور کامیابی کے وہ اصول کیا ہیں جو محض نصیحت نہیں بلکہ زندگی کی سمت متعین کر دیتے ہیں۔
اس فکری و تربیتی انقلاب کے دو ستون ہیں؛ جناب عبدالمجیب خان ، جن کی بصیرت نے دنیا کے بڑے اداروں اور رہنماؤں کو قیادت کے اسرار سمجھائے، اور مولانا صادق ابو حسان پوترک ، جو دل و دماغ کی گرہوں کو کھولنے والے ایسے ماہر ہیں جو سادہ لہجے میں پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلے کا حل نکال لیتے ہیں۔ ان دونوں شخصیات کی ہم آہنگی اس ورکشاپ کی جان ہے۔ ان کے ذریعے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ تعلیم کا مقصود صرف معلومات کا انبار جمع کرنا نہیں بلکہ سوچ، روح اور سماج—تینوں سطحوں پر بیداری پیدا کرنا ہے۔
یہی بیداری دراصل اس پروگرام کا مغز ہے، جو بتاتی ہے کہ جب علم اپنی اصل روح کے ساتھ جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو جائے تو تعلیم محض نصاب نہیں رہتی، ایک تحریک بن جاتی ہے۔
یہ ورکشاپ محض ایک تربیتی نشست نہیں بلکہ وقت کی ضرورت ہے، خصوصاً اُن لوگوں کے لیے جو علم کی دنیا میں سانس لے رہے ہیں، چاہے وہ اسکول کے طلبہ ہوں، کالج کے نوجوان یا یونیورسٹی کے اساتذہ۔ کیونکہ اصل بحران اب جہالت کا نہیں، بلکہ علم کے باوجود گم گشتگی کا ہے۔
دین سے بیزاری کا آغاز اُس لمحے ہوتا ہے جب انسان دین کو سمجھے بغیر اس پر رائے قائم کرتا ہے۔ جب فہم کی روشنی بجھ جاتی ہے تو اعتقاد کے چراغ بھی مدھم ہونے لگتے ہیں۔ یہی وہ خلا ہے جس میں شکوک پنپتے ہیں، الحاد اپنا جال بچھاتا ہے، اور اسلام بیزاری کا طوفان ذہنوں کو بہا لے جاتا ہے۔ حالانکہ، تاریخ گواہ ہے کہ جس نے دین کو سمجھا، وہ اس کے حسن کا اسیر ہوا اور جس نے اس کی گہرائی میں جھانکا، دنیا نے اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا۔
آج جامعات کے ماحول میں ایک خاموش فکری سردی پھیل رہی ہے؛ دلوں میں یقین کمزور ہو رہا ہے اور ذہنوں پر مغرب کی چمک کا غلبہ بڑھتا جا رہا ہے۔ نظریے اور عقیدے کے درمیان وہ رشتہ جو کبھی زندگی کو سمت دیتا تھا، اب ٹوٹنے کے قریب ہے۔
ایسے میں ٹریل بلیزر ایک تازہ ہوا کا جھونکا بن کر آتا ہے۔ یہ صرف علم نہیں دیتا بلکہ یقین کو تازہ کرتا ہے، ذہن کو سوال کرنا سکھاتا ہے مگر جواب بھی مہیا کرتا ہے۔ یہ اُن ذہنوں کے لیے مشعلِ راہ ہے جو مغرب کی فکری روشنی میں اپنی روح کھو بیٹھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس ورکشاپ کی اثر آفرینی صرف تین دنوں تک محدود نہیں رہتی یہ سوچ کے دھارے کو موڑ دیتی ہے، اور اس ہوا کا رخ بدل دیتی ہے جو کبھی اسلام بیزاری کی سمت چل پڑی تھی۔
یہ سہ روزہ (24-25-26 اکتوبر 2025) ورکشاپ انجمن اسلام کے احاطے میں تھا جو سی ایس ایم ٹی ممبئی میں واقع ہے، جس میں ہم مرکزالمعارف کے طلباء و اساتذہ نے شرکت کی اور خوب استفادہ کیا۔
پروگرام میں شرکت کے بعد محسوس ہوا کہ اس کے اثرات محض علمی نہیں بلکہ وجودی نوعیت کے ہیں۔ یہاں انسان کو صرف معلومات نہیں ملتیں بلکہ وہ اپنے اندر ایک نئی ترتیبِ فکر محسوس کرتا ہے۔ چند نکات جو دل و دماغ پر نقش ہو گئے، ان کا خلاصہ یہ ہے:
انسان محض جسم یا روح کا نام نہیں؛ وہ ایک ایسا امتزاج ہے جس میں مٹی اور نور دونوں کا جوڑ ہے۔ اگر انسان یکسر روحانیت کی طرف جھک جائے تو جسمانی تقاضے پسِ پشت چلے جاتے ہیں اور فطرت کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر وہ صرف مادیت کا پرستار بن جائے تو روح پژمردہ ہو جاتی ہے، اور نتیجے میں معاشرہ اندر سے کھوکھلا ہونے لگتا ہے۔

جب دل سے روشنی رخصت ہو جائے تو خواہشیں قانون بن جاتی ہیں، اور قانون خواہشوں کا غلام بن جائے تو چوری، فریب، بدکاری، حسد اور خودغرضی جیسے عفریت جنم لیتے ہیں۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں انسانی تہذیب اپنی بنیاد کھو بیٹھتی ہے۔ اس عدم توازن سے نجات کا واحد راستہ روح اور مادہ دونوں کے درمیان ہم آہنگی ہے، اور یہی ہم آہنگی اسلام نے اپنے ماننے والوں کو سکھائی۔
اسلام نے زندگی کو دو انتہاؤں میں تقسیم نہیں کیا بلکہ انہیں ایک دوسرے کی تکمیل بنا دیا۔ یہی وہ فلسفہ ہے جو حیاتِ نبوی ﷺ، اسوۂ نبوی ﷺ اور حیاتِ صحابہؓ میں اپنی سب سے حسین صورت میں جلوہ گر ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب قرآن کی ہدایات اور رسولِ اکرم ﷺ کی تعلیمات نے ریت کے ذروں کو روشنی کے مینار بنا دیا؛ ایسا توازن پیدا کیا کہ معاشرہ اتنا مستحکم ہوا کہ محتاج تلاش کرنے پر بھی نہیں ملتا تھا۔ آج بھی اگر دنیا اسی سرچشمۂ ہدایت سے فیض یاب ہو جائے تو سکون، انصاف، اور مساوات کی وہ کھوئی ہوئی دولت پھر سے لوٹ سکتی ہے۔ اونچ نیچ، ذات پات اور خودغرضی کی دیواریں ڈھ سکتی ہیں، اور ایک ایسا معاشرہ جنم لے سکتا ہے جس میں انسانیت اپنا کھویا ہوا سکون پا لے۔ وہ سکون جس کی تلاش میں آج پوری دنیا بھٹک رہی ہے۔
ورکشاپ کا ایک نہایت دلچسپ پہلو یہ بھی تھا کہ انسانی زندگی کو پیدائش سے پچپن تک کے تمام مراحل میں سمجھایا گیا کہ بچپن، جوانی اور بڑھاپے میں انسان کے اندر کیا تقاضے ابھرتے ہیں، ذہن کس چیز کا طالب ہوتا ہے، اور یہ تقاضے اگر صحیح رخ پر نہ ڈالے جائیں تو انسان اپنی حقیقت سے کیسے بھٹک جاتا ہے۔ یہ گفتگو دل کو چھو جانے والی تھی۔ یوں لگا جیسے انسان پہلی بار اپنے ہی وجود کا مفہوم سمجھ رہا ہو۔
ورکشاپ کا ایک اور سبق جس نے دل و دماغ دونوں کو جھنجھوڑ دیا، وہ انسان اور تکلیف کے باہمی رشتے پر گفتگو تھی۔
تکلیف انسان کی زندگی کا ایسا باب ہے جس سے کوئی مفر نہیں۔ مگر اس کے سامنے ہمیشہ دو راستے ہوتے ہیں، ایک وہ جو ذمہ داری کی طرف لے جاتا ہے، اور دوسرا وہ جو فرار کی طرف۔ جب انسان اپنی تکلیف کا سامنا کرتا ہے، اس کے اسباب کو پہچاننے اور ان کے حل کی کوشش کرتا ہے، تو اسی لمحے اس کے اندر فہم و ارتقاء کی چنگاری روشن ہوتی ہے۔ یہ چنگاری علم کی جستجو کو جنم دیتی ہے، اور علم اسے کامیابی کے قریب لے آتا ہے۔ یوں دکھ، جو ابتدا میں رنج معلوم ہوتا ہے، دراصل ایک رحمت میں ڈھل جاتا ہے، وہ اسے نکھارتا ہے، سنوارتا ہے، اور باطن میں نئی روشنی پیدا کرتا ہے۔ لیکن اگر انسان اس تکلیف سے بھاگنا چاہے تو وہ بظاہر خود کو بچاتا ہے، مگر حقیقت میں اپنے آپ کو کھو دیتا ہے۔
پھر وہ غم مٹانے کے لیے سنیما گھروں، نشے، موبائل، موسیقی، یا وقتی عیاشیوں کا سہارا لیتا ہے۔ مگر یہ سب صرف لمحاتی بھول ہے، مستقل شفا نہیں۔ ایسے شخص کے دل کا خلا پر نہیں ہوتا، بلکہ ہر لمحہ اور گہرا ہو جاتا ہے۔ غم ختم نہیں ہوتا، بلکہ اپنے ساتھ بے سمتی، اضطراب اور گناہ کا اندھیرا بھی لے آتا ہے۔ اسی لیے انسان کے لیے اصل کامیابی یہ نہیں کہ وہ تکلیف سے بچے، بلکہ یہ ہے کہ وہ تکلیف کو اپنے ارتقاء کا ذریعہ بنا لے۔ کیونکہ جس نے درد کے اندر معنی تلاش کر لیا، وہ کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ اس طرح یہ درد و غم رحمت خداوندی نظر آنے لگتا ہے جو تکلیف دینے کیلئے نہیں بلکہ کچھ سیکھا اور کامیابی کے راہ ہموار کرنے کیلئے ہوتا ہے۔ یہی وہ پیغام تھا جس نے احساس دلایا کہ دکھ اگر شعور کے ساتھ جیا جائے تو وہ زوال نہیں، کمال کی راہ بن جاتا ہے۔
ورکشاپ کے اختتامی لمحوں میں سب سے زیادہ جس خیال نے دل کو چھوا، وہ یہ تھا کہ قرآن دراصل زندگی کی رہنمائی کی کتاب ہے اور اس سے ہدایت حاصل کرنا ہی ایک زندہ اور بیدار قوم کی علامت ہے۔ قرآن کی تلاوت محض روحانیت کی سیڑھی نہیں، بلکہ شعورِ انسانی کو بیدار کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ نہیں کہ انسان متقی بن جائے، بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ متفکر، باشعور اور باعمل مومن بنے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ بار بار غور و فکر کی دعوت دیتا ہے، کیونکہ ایمان جامد نہیں رہتا وہ مشاہدے، تجربے اور تفکر سے تازگی پاتا ہے۔
آج کا المیہ یہی ہے کہ ہماری نئی نسل نے قرآن سے رشتہ کمزور کر لیا ہے۔ مغربی نظامِ تعلیم کی چمک، سائنسی علوم کی کشش، اور مادّی کامیابیوں کی دوڑ نے ان کے ذہنوں کو الجھا دیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ایمان ایک عقیدے سے زیادہ، ایک “رسم” بن کر رہ گیا ہے۔ یہ دوراہا دراصل غلط فہمی کی پیداوار ہے، قرآن کو محض ایک مذہبی کتاب سمجھ لیا گیا، حالانکہ وہ کائنات کا آئینہ ہے۔

قرآن انسان کو کائنات کے اسرار پر غور کی دعوت دیتا ہے، اس کے مظاہر میں نشانیوں کی تلاش سکھاتا ہے، اور انسان کے اندر یہ احساس جگاتا ہے کہ علم صرف عبادت گاہ میں نہیں بلکہ فضا، دریا، کہکشاں اور زمین کے ذروں میں بکھرا ہوا ہے۔ در حقیقت، قرآن “کلامِ الٰہی” ہے، اور کائنات اس کے الفاظ کی زندہ تفسیر۔
یہی وہ نقطہ ہے جس سے انسان سمجھتا ہے کہ سائنس دراصل غور و فکر کے اسی قرآنی حکم کا تسلسل ہے۔ کائنات کے نظام میں غور کرنا، نتائج اخذ کرنا، اور ان سے انسانیت کی خدمت کے وسائل پیدا کرنا یہی وہ عمل ہے جو قرآن کی دعوت کو عملی صورت دیتا ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ قرآن اجمال ہے، اور سائنس اس کی تفصیل؛ قرآن ہدایت دیتا ہے، اور سائنس اس ہدایت کی تائید۔ یہی احساس اس ورکشاپ کی روح تھی کہ علم اگر ایمان سے جڑ جائے تو تحقیق عبادت بن جاتی ہے، اور عقل اگر وحی کے تابع ہو تو وہ انسان کو زمین کا خلیفہ بنا دیتی ہے۔

ماشاء اللہ ، آپ نے لکھا نہیں ہے ،نچوڑ دیا ہے ،اللہ اس قلم کو مزید پراثر اور ثمرآور بنائے ۔