اگر اب بھی نہ جاگے تو۔۔۔۔۔۔۔بہار کے مسلمانوں کے لیے ایک فکری پیغام
ازـــــــ مدثر احمد قاسمی
جمہوری نظام میں کسی بھی طبقے کی حیثیت اُس وقت مضبوط اور مؤثر بنتی ہے جب وہ اپنی آبادی کے تناسب سے نمائندگی حاصل کرے۔ افسوس کہ بہار جیسے باشعور صوبے میں مسلمانوں کی نمائندگی اُن کی آبادی کے لحاظ سے اسمبلی میں کبھی بھی نہیں رہی۔ یہ ایک المیہ ہے جس کی جڑیں نہ صرف سیاسی ناانصافی میں ہیں بلکہ ہمارے اپنے اندر پائی جانے والی غفلت، بیزاری اور نادانی میں بھی ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب کوئی قوم اپنے اجتماعی مفاد سے بے پروا ہو جاتی ہے، تو دوسروں کے فیصلے اُس کی تقدیر لکھنے لگتے ہیں۔ بہار اسمبلی میں مسلمانوں کی تعداد ایک طویل عرصے سے کم ہوتی جا رہی ہے، جب کہ ان کی آبادی صوبے کی کل آبادی کا تقریباً 18 فیصد ہے۔ اگر انصاف کی بنیاد پر دیکھیں تو 243 نشستوں والی اسمبلی میں مسلمانوں کا حصہ کم از کم 44 سیٹوں پر ہونا چاہیے۔ مگر حقیقت اس سے کہیں زیادہ تلخ ہے۔
یہ محرومی صرف نمائندگی کی نہیں، بلکہ آواز دبنے، مسائل نظرانداز ہونے اور پالیسی سازی سے دور رہ جانے کی بھی ہے۔ جب تک ہماری نمائندگی نہیں بڑھے گی، تب تک ہماری سماجی و تعلیمی پسماندگی، روزگار کی قلت، اور سیکورٹی کے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ نمائندگی کا مطلب صرف کرسی حاصل کرنا نہیں، بلکہ اپنی قوم کے مفادات کا تحفظ کرنا، انصاف کے لیے آواز اٹھانا، اور عوامی فیصلوں میں مؤثر کردار ادا کرنا ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ووٹ صرف ایک پرچی نہیں، بلکہ ایک امانت ہے۔ اگر ہم جذباتی نعروں، وقتی فائدوں یا ذات برادری کی بنیاد پر ووٹ دیتے رہے، تو نقصان ہمیشہ ہمارا ہی ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان متحد ہو کر، ہوش مندی کے ساتھ اپنے ووٹ کا استعمال کریں اور اپنی سیاسی حصے داری کو یقینی بنائیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم شکایتوں کے بجائے شعور کی راہ اپنائیں۔ اپنی نمائندگی کے لیے اٹھیں، اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، اور جمہوری میدان میں اپنی موجودگی کو محسوس کرائیں۔ کیونکہ جب مسلمان نمائندگی کے ساتھ ایک منظم پریشر گروپ کے طور پر ابھریں گے، تب ہی ان کے مسائل کی گونج ایوانوں میں سنی جائے گی، اور تب ہی بہار کی سیاست میں انصاف، توازن اور حقیقی جمہوریت کی روح قائم ہوگی۔
"وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمان خوابِ غفلت سے جاگیں، اور اپنی نمائندگی کو اپنی بقا کا مسئلہ سمجھ کر میدان میں آئیں۔”