مادر علمی کے مبارک ماحول میں اساتذہ اور دوستوں کے ساتھ گزرے دو روز کی انمول یادیں
🖊️: محمد طیب قاسمی بجنوری
14نومبر 2024
تقریبا دو مہینے قبل مادرعلمی مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر کی جانب سے یہ خبر موصول ہوئی کہ بتاریخ دس اور گیارہ نومبر 2024 کو مرکز عقیدت ومحبت سرزمین دیوبند میں انگلش میڈیم مرکز آن لائن مدرسہ کے افتتاح کے حوالے سے دوروزہ قومی سیمنار منعقد ہونے جارہا ہے، جس میں ملک بھر سےمرکز المعارف کے فضلاء اور دیگر اہل علم کثیر تعداد میں شریک ہوں گے۔
جب سیمنار کی یہ خبر ملی تو دل میں ایک عجیب سی خوشی اور جوش کی لہر دوڑ گئی، گو کہ یہ سیمنار نہایت ہی اہم اور عظیم المقاصد تھا(جس کی تفصیلات عنقریب منظر عام پر آجائے گی) مگر دوسری جانب ہر ایک کے ذہن میں یہ خیال بھی آرہا تھا کہ اسی بہانے دوستوں سے ملاقات ہو جائے گی(اسی پہلو پر ہم یہاں بات کریں گے
دوستوں سے ملنا اور ان کے ساتھ وقت گزارنا ہمیشہ خوشی کا باعث ہوتا ہے، اور جب اس ملاقات کے لیے کوئی بہانہ مل جائے تو دل کو اور بھی سکون ملتا ہے،حالیہ سیمنارکا اعلان بھی کچھ ایسا ہی تھا، چنانچہ جوں جوں وقت قریب آتا گیا اشتیاق بڑھتا گیا، بالآخر مقررہ تا ریخ آ پہنچی۔
دہلی سے دیوبند کے لئے روانگی
چنانچہ 10 نومبر کی صبح صادق کے وقت ہم دو ساتھی دہلی سے بذریعہ ٹرین تقریبا ساڑھے تین گھنٹوں کا مختصر مگر یادگار سفر طے کرکے دس نومبر کی صبح بوقت 8:30 بجےدیوبند اسٹیشن پر اتر گئے، جہاں پہلے ہی سے اسٹیشن کے اندرونی علاقہ میں دیوبندی رکشہ ڈرائیور موجود تھے اور ہمارے قریب بڑھ کر اپنے مخصوص انداز میں کہ رہے تھے "آجاؤ حضرت دارالعلوم چلوگے؟”
دیوبندی رکشہ ڈرائیور
دیوبند کے رکشہ ڈرائیوروں کا مخصوص انداز اور اخلاق مقامی ثقافت کی خوبصورتی اور روایات کو پیش کرتا ہے، یہاں کے رکشہ ڈرائیور اکثر سادہ، خلوص دل والے اور محنتی ہوتے ہیں، ان کا طرزِ گفتگو عام طور پر دوستانہ اور روایتی ہوتا ہے، جس میں دیوبند کی خوشبو کا امتزاج ہوتا ہے، دیوبند کے لوگ عموماً مذہب سے قریب ہوتے ہیں، اور یہ بات رکشہ ڈرائیوروں کے طرزِ عمل میں بھی جھلکتی ہے، بہر حال ہم نے ایک ڈرائیور سے معاملہ طے کیا اور اس کے ساتھ اسٹیشن سے باہر نکل کر سوار ہوئے اور مادر علمی کی جانب رواں دواں ہوئے
دارالعلوم کے جدید مہمان خانے میں
تھوڑی ہی دیر میں ہم دارالعلوم کے جدید مہمان خانے کے دروازے پر پہنچ گئے، جہاں بہت پرتپاک اور پروقار ماحول میں گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا گیا، دروازے پر خوش آمدید کا ایک خوبصورت بورڈ سجایا گیا تھا، مہمان خانہ میں داخل ہوتے ہی حسن انتظام کی جھلک ہر طرف نمایاں تھی، دوست واحباب ملکوتی لباس میں ملبوس اپنے چمکتے دمکتے نورانی چہروں پر مسکراہٹ سجائے ہوئے نرمی اور محبت بھرے انداز میں روایتی الفاظ کے ساتھ خوش آمدید کہہ رہے تھے اور ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے، رسیپشن پر ایک بڑا کاؤنٹر سجایا گیا تھا جس پر موجود منتظمین کا مخصوص عملہ مہارت اور خوش اخلاقی کے ساتھ مہمانوں کا اندراج کرکے انہیں اعزازی طور پر شناختی کارڈ اور ساتھ میں ایک بیش قیمتی بیگ پیش کررہا تھا، سیمنار میں آنے والے علماء کی خدمت میں پیش کیا گیا یہ عمدہ اورنفیس بیگ واقعی اعلیٰ معیار اور نفاست کی علامت تھا، ایسا لگتا تھا کہ بیگ عمدہ معیار کے اصلی چمڑے سے تیار کیا گیا تھا، جس کی ملائم سطح اور خوبصورت چمک اس کی اعلیٰ کاریگری کو نمایاں کر رہی تھی، بیگ کا رنگ سیاہ اور براؤن تھا، جس پر وائٹ دھاگے سے باریک سلائی کی گئی تھی جو اسے ایک منفرد اور شاندار انداز دے رہی تھیں، بیگ کا ڈیزائن کلاسک اور پروفیشنل تھا، جس میں کئی جیبیں اور مختلف حصے تھے تاکہ علماء اپنے ضروری کاغذات، کتابیں اور دیگر اشیاء آسانی سے محفوظ رکھ سکیں، بیگ کے سامنے والے حصے پر ادارہ کا لوگواورنام خوبصورت خطاطی میں کندہ کیا گیا تھا، جبکہ زپ اور بکلز بھی سنہرے مضبوط اور اعلیٰ معیار کے تھے۔
یہ بیگ نہ صرف ایک تحفہ تھا بلکہ علماء کے لیے ایک یادگار اور معزز پیشکش تھی، جو ان کے ذوق اور وقار کے عین مطابق تھی۔
مہمان خانے کا اندرونی نظم
یہ اعزازی ہدیہ وصول کرکے ہم مہمان خانے کے اندرونی حصہ میں داخل ہوئے، جس کے کمرے آرام دہ اور ہر طرح کی سہولت سے آراستہ تھے، جن میں سادگی اور وقار کے ساتھ ساتھ ہر ممکن صفائی اور نظافت کا بھی خاص خیال رکھا گیا تھا، جن میں صاف بستر، نرم تکیے، ہر کمرے کے ساتھ جڑا ہوا ایک لمبا چوڑا باتھ روم بھی تھا جس میں تازہ اور گرم دونوں طرح کے پانی کا انتظام کیا گیا تھا۔
کھانے کا نظم
پروگرام میں شریک علماء کے لئے ناشتہ، ظہرانہ اور عشائیہ کا عمدہ اور باوقار نظم کیا گیا تھا، کھانے کے انتظام کے لئے ایک مخصوص ڈائننگ ایریا تیار کیا گیا تھا، جہاں میزیں اور کرسیاں ترتیب سے رکھی گئی تھیں، اور ان پر صاف ستھرے اور نفیس دستر خوان بچھائے گئے تھے،
کھانے میں متوازن غذائیت سے بھرپور پکوان شامل تھے، جن میں ذائقے اور مولوی معیار کا خاص خیال رکھا گیا تھا، روایتی کھانے، جیسے کہ قورمہ، بریانی، سادہ چاول، اور مختلف سبزیوں کے پکوان مہمانوں کی پسند کو مدنظر رکھ کر پیش کئے گئے تھے،اس کے علاوہ سلاد اور روٹیوں کی مختلف اقسام بھی موجود تھیں تاکہ علماء اپنی پسند کے مطابق کھانا چن سکیں،
کھانے کے اختتام پر بطور تلذذ میٹھے کا بھی خاص انتظام تھا، ساتھ ہی چائے اور آئس کریم کا بھی اہتمام کیا گیا تھا تاکہ علماء کھانے کے بعد آرام سے چائے یا آئس کریم سے لطف اندوز ہو سکیں۔
ڈائننگ ہال کا ماحول
ڈائننگ ہال میں ایک پرسکون اور دوستانہ ماحول تھا، ہم سب کے مخدوم اساتذۂ دارالعلوم آج سراپا خادم بنے ہوئے تھے، حضرت مولانا عبد الملک، ان کے رفقاء اور طلبہ نے نہایت ہی احترام وخوش اخلاقی کے ساتھ اپنی بے لوث خدمت پیش کرکے ہمارے دلوں کو خوب متاثر کیا، اللہ رب العزت ان حضرات کو اپنی شایان شان بہترین بدلہ عطا فرمائے ، آمین!
باہم خوشگوارملاقاتیں
اس تاریخ ساز دوروزہ دورانیہ میں ہر ایک سے ملاقات ایک الگ ہی خوشی کا باعث بنی، پرانے قصے، ایم ایم ای آر سی کے دنوں کی کہانیاں، چھوٹی چھوٹی شرارتیں اور کامیابیوں کی باتیں، سب کچھ جیسے ایک بار پھر سے لوٹ آیا ہو، گفتگو کے بیچ بیچ میں ہنسی مذاق اور قہقہے بکھر رہے تھے، ہر کوئی جانتا تھا کہ حقیقت میں یہ لمحات دوستوں کے ساتھ گزارنے کا بہترین موقع ہیں، ہر دوست سے مل کر دل کو جیسے ایک تسکین مل رہی تھی، زندگی کی مصروفیات میں سب بکھر گئے تھے، لیکن اس سیمنارکے بہانے سب ایک بار پھر اکٹھے تھے، ایسا لگا جیسے وقت پلٹ گیا ہو اور ہم سب ایک بار پھر انہی حسین دنوں میں واپس پہنچ گئے ہوں، خوشی کے ساتھ ساتھ اپنے ذاتی اعذار کی بناء پر نا آنے والے بعض ساتھیوں کی یاد بھی رہ رہ کر ستا رہی تھی، ان کے بغیر کچھ ادھورا سا محسوس ہورہاتھا، کاش وہ بھی ساتھ ہوتے تو یہ یادگار لمحات مزید خوبصورت ہوجاتے۔
دیوبند کے قرب وجوار سےتعلق رکھنے والے بعض ساتھیوں نے بڑی محبت سے اپنے اپنے دولت کدہ کی زیارت کرنے پر مجبور کیا، چنانچہ سیمنار کے دوسرے دن بعد نماز ظہر مولانا محمد راشد مظفر نگری نے باضابطہ اہتمام کے ساتھ دو عمدہ آرام دہ گاڑیوں کا انتظام کیا، اور تھوڑی ہی دیر میں ہم کل دس رفقاء ان کے موضع برلہ پہنچ گئے، وہاں پہنچ کر سب سے پہلے مولانا راشد نے اپنے گاؤں میں واقع اس اسکول کی زیارت کرائی جو انہوں نے اپنے ایک مخلص استاذ کی معیت میں سال 2024 ہی میں قائم کیا تھا، جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ اساتذہ پہلے ہی سے ہمارے انتظار میں کھڑے تھے، ان کے چہروں پر خوش آمدید کا جذبہ اور محبت جھلک رہی تھی وہاں کا ماحول بڑا پُرسکون اور تعلیمی رنگ میں رنگا ہوا تھا، اسکول کی عمارت سادہ مگر صاف ستھری تھی، اساتذہ نے نہایت خوشی اور محبت سے ہمیں خوش آمدید کہا، اسکول ہی کے اندر قائم مسجد میں نماز عصر اداء کی، نماز سے فارغ ہوئے تو دسترخوان ہمارے انتظار میں بچھا ہوا تھا، دسترخوان پر دیسی ناشتے، مٹھائیاں، پھل اور نمکیات سجائے گئے تھے، گھر کی بنی ہوئی دیسی چائے کی خوشبو اور کشش بھی ہمیں اپنی طرف کھینچ رہی تھی، مولانا راشد اور ان کے مشفق استاذ نے نہایت محبت سے ہمیں ناشتہ پر بٹھایا اور خود بھی ہمارے ساتھ شریک ہوئے، ناشتے کے دوران گپ شپ اور ہنسی مذاق کا ایک خوبصورت ماحول بن گیا، اس خالص اور پرخلوص ناشتے کا مزہ شہر کی زندگی میں اکثر نہیں ملتا،ناشتے کے بعد اسکول کی کلاسوں کا معائنہ کیا، کلاس رومز کی سادگی اور ان کی ترتیب میں ذمہ داران کی محنت اور اخلاص صاف نظر آرہا تھا اور دل سے بے ساختہ یہ دعاء نکل رہی تھی کہ اللہ رب العزت مولانا راشد کے اس اسکول کو دن دوگنی رات چوگنی ترقیات سے نوازے!
اس کے بعد مولانا راشد صاحب کے اپنے ذاتی گھر پہنچے جو کئی بیگھہ اراضی پر مشتمل ہے، وہاں کا منظر دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا، گھر کھلی فضاء میں واقع تھا، چاروں طرف ہری بھری فصلیں لہلہا رہی تھیں، دور تک سبز چادر بچھی ہوئی تھی، گھر کے ایک جانب کچھ بھینسیں اپنا چارہ کھانے میں مصروف تھیں اور ان کے ارد گرد پرندے چہچہارہے تھے اور فضا میں ایک فطری سکون اور خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔
مولانا راشد صاحب نے ہمیں گھر میں ٹریکٹر چلانے کا تجربہ کروانے کا بھی انتظام کیا، ٹریکٹر پر بیٹھ کر جیسے ہی ہم نے اسے چلانا شروع کیا، تو ابتدائی طور پر تھوڑی مشکل محسوس ہوئی، مگر مولانا راشد کی مددسے ہم نے اس پر قابو پا لیا، گھر میں ٹریکٹر پر بیٹھ کر ڈرائونگ کرنے کا یہ تجربہ نہایت دلچسپ تھا، نماز مغرب سے فارغ ہوکر دیوبند کی طرف روانہ ہوئے،مولانا راشد صاحب برق رفتاری سے ڈرائونگ کرتے ہوئے محض پندرہ منٹ میں ہمیں محمود حال کے سامنے لے آئے، جہاں کانفرنس کا آغاز ہونے ہی والا تھا۔
سیمنار کا آخری سیشن
سیمنار کے آخری سیشن میں دارالعلوم کے مہتمم حضرت اقدس مولانا ومفتی ابو القاسم دامت برکاتہم العالیہ، محسن ملت حضرت مولانا بدر الدین اجمل صاحب قاسمی دامت برکاتہم العالیہ اور بڑے بڑے اساتذہ کی موجودگی نے اسٹیج کی رونق کو دوبالا کر دیا تھا، ان محترم شخصیات کی علمی عظمت اور وقار نے اس سیمنار کو خاص بنا دیا تھا، اسٹیج پر رونق افروز ان بزرگ اور محترم شخصیات کی موجودگی نے ایک فکری محفل کا منظر پیش کیا، جہاں علم و حکمت اور بصیرت کا تبادلہ ہو رہا تھا، خیر تقریبا پانچ گھنٹے کا یہ آخری سیشن تھا، مذکورہ اہم شخصیات کی موجود گی اور حاضرین پر ان کی توجہات اتنی پر کشش اور متاثر کن تھیں کہ ہم انہیں سننے اور دیکھنے پر مجبور ہوگئے، چنانچہ مسلسل چار گھنٹے تک پورا مجمع نہایت ہی سکون واطمینان کے ساتھ حاضر رہا اور نہایت ہی قیمتی و پر مغز بیانات اور پند و نصائح سے اپنے قلوب کو جلا بخشتا رہا۔
حضرت مولانا ومفتی ابو القاسم نعمانی دامت برکاتہم العالیہ شیخ الحدیث ومہتمم دارالعلوم دیوبند ، حضرت مولانا بدرالدین اجمل صاحب رکن مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا ومفتی محمد راشد صاحب اعظمی دامت برکاتہم العالیہ استاذ حدیث ونائب مہتمم دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا محمد سلمان صاحب بجنوری دامت برکاتہم العالیہ استاذ حدیث ومدید ماہنامہ دارالعلوم دیوبند ونائب صدر جمعیۃ علماء ہند و خلیفہ شیخ المشائخ محبوب العلماء حضرت مولاناپیر ذوالفقار نقشبندی مجددی دامت برکاتہم العالیہ، حضرت مولانا شوکت علی صاحب بستوی دامت برکاتہم العالیہ استاذ حدیث وتفسیر دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا منیر عالم صاحب دامت برکاتہم العالیہ استاذ دارالعلوم دیوبند جیسی عظیم شخصیات نے مزکز المعارف کی جانب سے قائم کردہ آن لائن مدرسہ کا آغاز اپنے دستان مبارک سے کرتے ہوئے خوب تائید و توثیق اور اپنی قیمتی دعاؤں سے نوازا، جس نے مرکز المعارف کے ذمہ داران کے حوصلوں میں ایک نئی روح پھونک دی (اس پہلو پر ہم دوسری تحریر میں بات کریں گے، اس وقت تو دوستانہ ماحول میں گزارے گئے وقت کو سپرد قرطاس کیا جارہاہے) بہر حال یہ آخری سیشن حضرت مولانا سلمان صاحب بجنوری کی قیمتی دعاء پر اپنے اختتام کو پہنچا اور ہم واپس اپنے دوستوں میں۔
باہم الوداعی ملاقات کا منظر
پروگرام کے اختتام پر الوداعی رخصتی کا منظر نہایت جذباتی اور دل کو چھو لینے والا تھا، ہر ایک کی زبان پر بس ایک ہی سوال تھا آپ کب نکل رہے ہیں یا آپ کونسی گاڑی سے جارہے ہیں، کسی کی ٹرین کا وقت مقررہ آچکا تھا، کسی کی گاڑی ایک گھنٹے کے بعد آنے والی تھی، کوئی رات دو بجے نکلنے والا تھا، کسی کو صبح صادق کے وقت نکلنا تھا،کسی کی گاڑی مہمان خانے پر لگی اس کا انتظار کررہی تھی، ہمیں بھی رات ایک بجے نکلنا تھا، گیارہ سے ایک بجے تک ہم مہمان خانے میں مین گیٹ کے قریب کھڑے رہے، اور رخصت ہونے والے دھیرے دھیرے رخصت ہوتے رہے، ان کو رخصت کرتے ہوئے کبھی باہر تک چلے جاتے تھے، دوست واحباب ایک دوسرے سے گرم جوشی سے گلے مل رہے تھے، کچھ کے چہروں پر مسکراہٹیں تھیں تو کچھ کی آنکھوں میں الوداعی آنسو جھلک رہے تھے، ہر کوئی محبت اور خلوص کے ساتھ ایک دوسرے کو مستقبل کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کر رہا تھا، رخصت ہونے والا رات کا وہ منظر نہایت دل کو چھو لینے والا تھا، اساتذہ اور دوست واحباب ایک دوسرے کے ساتھ گہری محبت اور اپنائیت کے احساس کے ساتھ الوداع کہہ رہے تھے، جب گلے ملتے تو دل کی گہرائی سے نکلنے والی خاموش دعا اور پیار کا اظہار کرتے، کچھ لمحے رک کر ایک دوسرے کو دیکھتے، پھر آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتے اور دوبارہ ملنے کی امید دل میں لے کر اپنی اپنی راہوں پر چل پڑتے۔
مرکز المعارف کے بے پناہ مشفق ومہربان اساتذہ کرام ہمیشہ کی طرح اس موقع پر بھی وداع ہونےوالوں کو فرینڈلی اور والہانہ محبت کے ساتھ گلے مل کررخصت کررہے تھے، رات ایک بجے تک ہم یہ منظر دیکھتے رہے اور بادل نا خواستہ ایک بجے ہم بھی اسٹیشن کی جانب رواں دواں ہوئے۔
ان خوبصورت لمحوں اور یادگار ملاقاتوں کے بعد آخرکار ہمیں بھی اپنے اساتذہ اور دوستوں کو الوداع کہنا پڑا، دل میں جدائی کی گہری اداسی لیے ہم دہلی کی طرف روانہ ہو گئے، واپسی کے سفر میں ان ملاقاتوں کی یادیں اور سیکھنے کے لمحات ہمارے ذہنوں میں بار بار گردش کرتے رہے، ان کی نیک تمنائیں اور رہنمائی ہمارے دلوں میں ایک قیمتی اثاثے کی طرح محفوظ ہوگئی اور قوی امید ہے کہ یہ رفاقتیں اور ملاقاتیں زندگی بھر یاد رہیں گی۔
اس اجتماعی پروگرام کی یادیں ہمارے دل میں ہمیشہ زندہ رہیں گی، یہ وہ موقع تھا جس نے ہمیں دوبارہ ایک جگہ پر جمع کیا اور ہمیں اپنی دوستی کی خوبصورتی اور اساتذہ سے محبت کا احساس دلایا، یہ پروگرام ہمارے لیے خوشی اور محبت کا ایک بیش قیمت تحفہ تھا جسے ہم کبھی بھول نہیں سکتے۔
اے اللہ! اس ادارے اور اس سے وابستہ تمام افراد کو ہر قسم کےفتنہ و فساد اور دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھ اور اسے امن و سلامتی کا گہوارہ بنا، آمین یا رب العالمین!