بہار کے مسلمان ووٹرز کو پچھلی غلطی دہرانے سے گریز کرنا چاہیے
از: محمد برہان الدین قاسمی
مدیر: ایسٹرن کریسنٹ – ممبئی
ہر حقیقی جمہوریت نمبروں پر چلتی ہے۔ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ یہاں ووٹروں کی عددی طاقت ہی طے کرتی ہے کہ کون حکومت کرے گا اور کون قانون ساز اداروں کی قیادت کرے گا — چاہے وہ پارلیمنٹ ہو، اسمبلی ہو یا مقامی ادارے۔ اس نظام میں ہر ووٹ اہم ہے اور ہر طبقے کا فیصلہ اپنے اثرات چھوڑتا ہے۔ بہار، جو ہندوستان کی سیاسی طور پر بیدار ریاستوں میں سے ایک ہے، ہمیشہ سے قومی سیاسی رجحانات کا تجربہ گاہ رہی ہے۔ سن 2020 کا بہار اسمبلی انتخاب ایک نمایاں مثال تھا — ہائی وولٹیج مقابلہ جس میں وفاداریاں بدلتی رہیں، جذبات بھڑکتے رہے اور نتیجہ میں فرق معمولی رہا۔ انتخابی مہم کے دوران اور رائے شماری سے قبل کیے گئے سروے بتا رہے تھے کہ تیجسوی یادو اور راہل گاندھی کی قیادت میں آر جے ڈی–کانگریس اتحاد جیتنے کی راہ پر ہے۔ ووٹوں کی گنتی کے ابتدائی گھنٹوں میں یہی تاثر مضبوط ہوا، مگر دوپہر تک منظر نامہ بدل گیا اور بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے نے غیر متوقع طور پر بازی مار لی۔
نتائج کے بعد کی گہرےتجزیہ سے پتہ چلا کہ اس غیر متوقع جیت کے پیچھے کئی عوامل کارفرما تھے۔ این ڈی اے کی منظم منصوبہ بندی، نشستوں کی حکمت عملی پر مبنی تقسیم، اور بہار کی سماجی و مذہبی ساخت کے حساب سے بی جے پی کی جغرافیائی حکمت عملی نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ اس کے مقابلے میں آر جے ڈی–کانگریس کیمپ میں حد سے زیادہ اعتماد اور ووٹ گنتی کے دن نگرانی کی کمی نے نقصان پہنچایا۔
ایک بڑا سبب اسد الدین اویسی کی پارٹی اے آئی ایم آئی ایم بھی بنی، جس نے خاص طور پر سیمانچل کے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلم ووٹ تقسیم کیے۔ اگر یہ ووٹ ایک جگہ مجتمع ہوتے تو نتیجہ مختلف ہو سکتا تھا۔ چند نشستیں جیتنے کے باوجود ایم آئی ایم کا اثر درجنوں حلقوں میں پڑا، جہاں تین طرفہ مقابلے میں سیکولر امیدوار کمزور ہوئے اور این ڈی اے کو بالواسطہ فائدہ ملا۔

پانچ سال گزر چکے ہیں۔ نتیش کمار اب بہار کے سب سے طویل عرصے تک وزیر اعلیٰ رہنے والے شخصیت بن چکے ہیں۔ اس دوران ہندوستان کی سیاست میں فرقہ وارانہ تقسیم خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ بی جے پی کی قیادت والی حکومت نے ملک کو ایسے دو حصوں میں بانٹ دیا ہے جہاں قومی وحدت اور اکثریت خطرے میں ہے۔
اب بہار کا آنے والا اسمبلی انتخاب اس رجحان کو پلٹنے کا سنہری موقع فراہم کرتا ہے۔ بہار کے ووٹرز، خصوصاً مسلمان، سمجھداری اور حکمت سے ووٹ ڈال کر تبدیلی لا سکتے ہیں۔ لیکن ابتدائی اشارے تشویش ناک ہیں۔ جذباتی نعروں، حد سے زیادہ اعتماد اور حکمتِ عملی کی کمی نے پھر ماحول کو دھندلا بنا دیا ہے۔ آر جے ڈی–کانگریس میڈیا میں نمایاں ہے، این ڈی اے خاموشی سے اپنی جڑیں مضبوط کر رہا ہے، اور اویسی کی سوشل میڈیا ٹیم جذباتی فضا بنا کر مسلم ووٹوں کو منتشر کرنے میں مصروف ہے۔
یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ بی جے پی کو پچھلے چند برسوں میں پیچھے سے آکر جیتنے کا ہنر آ چکا ہے۔ گجرات، راجستھان، ہریانہ اور دہلی میں یہی دیکھا گیا۔ تاہم مغربی بنگال نے ثابت کیا کہ بی جے پی ناقابلِ شکست نہیں ہے۔ وہاں مسلمانوں نے جذباتی سیاست سے گریز کیا، اتحاد کے ساتھ ووٹ دیا، اور نتیجہ بی جے پی کی شکست کی صورت میں آیا۔
بہار کے مسلمان ووٹرز کو بنگال کے تجربے سے سبق لینا چاہیے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا وہ چند بلند آواز نمائندے چاہتے ہیں جو اسمبلی میں نعرے لگائیں اور بل کے کاغذ پھاڑیں؟ یا ایک ایسی مستحکم حکومت جو اوقاف کی حفاظت، سماجی انصاف اور بطور ہندوستانی شہری مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت دے؟
جذباتی سیاست وقتی تسکین دیتی ہے مگر دیرپا تبدیلی نہیں۔ قانون سازی میں طاقت شور مچانے میں نہیں بلکہ پالیسیوں کو متاثر کرنے میں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ایک سیکولر اور مستحکم حکومت وجود میں آئے بجائے چند نمائشی آوازوں کے جو قوم کو مزید تقسیم کر دیں۔
بہار اور ہندوستان دونوں ایک تاریخی موڑ پر ہیں۔ اگر 2020 کی غلطی دہرائی گئی — یعنی مسلم ووٹوں کی تقسیم ہوئی — تو نتیجہ پھر وہی ہوگا: این ڈی اے کی جیت اور پانچ مزید سالوں کی سیاسی ندامت۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ جب بہار میں انتخابات ہوں گے تو نیویارک میں بھی 4 نومبر 2025 کو میئر کا الیکشن ہوگا، جہاں ہندوستانی نژاد زہران ممدانی ممکنہ طور پر پہلے مسلمان میئر بن سکتے ہیں۔ ان کی مقبولیت مذہب یا رنگ و نسل کی بنیاد ہرگز نہیں بلکہ جامع قیادت پر مبنی ہے۔ وہ سب کے نمائندہ ہیں — مسلم، غیرمسلم، ایشیائی، افریقی سیاہ فام اور سفید فام۔ یہ ایک سبق ہے کہ اصل قیادت ذات و مذہب سے بالاتر ہوتی ہے۔
یہی اصول ہندوستان پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ ایک کثیر مذہبی، کثیر لسانی ملک میں قیادت کو جامع اور وسیع ہونا چاہیے۔ اویسی صاحب جیسے رہنما ملی اور محدود علاقائی سطح پر مفید کردار ادا کر سکتے ہیں، مگر انہیں قومی سیاست میں جہاں پہلے سے اشتعال انگیزی عروج پر ہے، مسلمانوں کو تختہ مشق بنانے کے بجائے تعمیر کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

اب فیصلہ بہار کے مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے — وہ جذبات کو ترجیح دیں گے یا حکمت کو؟ اگر وہ دانشمندی کا مظاہرہ کریں تو بہار ہندوستان کی قومی یکجہتی کے بحالی کی شروعات کر سکتا ہے۔ بصورت دیگر، 2020 کا انجام دوبارہ دہرایا جائے گا اور مزید پانچ سال کے پچھتاوا کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
