مذہب اسلام میں عید کا تصور ہر کسی کے لیے خوشی اور ملن کا سنگم
از: محمد توقیر رحمانی
اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جو تمام لوگوں کو بلا تفریق مسلک و مشرب ان کے سماجی یا اقتصادی حیثیت سے پرے ہوکر گلے لگاتا ہے۔ اس کی ایک بنیادی تعلیم قربانی کا تصور ہے، جو اللہ کی رضا کے لئے کسی محبوب چیز کو قربان کرنے کے عمل کی علامت ہے۔ یہ عمل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، جو اللہ کے ایک ہی حکم پر اپنے سب سے عزیز و لخت جگر اسماعیل کو قربان کرنےکے لیے بخوشی رضا مند ہو کر اللہ کی راہ میں پیش کرنے چل پڑے تھے۔
اسلام کی اصل روح، اللہ تعالیٰ کی رضا کے سامنے سر تسلیم خم کرنا اور اس کی مرضی کے آگے جھکنا ہے۔ جب ایک مسلمان قربانی کرتا ہے، تو وہ صرف ایک رسم میں حصہ نہیں لے رہا ہوتا؛ بلکہ وہ اپنی عقیدت اور اللہ کی مرضی کے آگے مکمل طور پر جھک کر اپنی رضامندی کا اظہار کر رہا ہوتا ہے۔ اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر اعتماد اور پورے وثوق کے ساتھ عمل پیرا ہونا ہی مسلمان ہونے کے معنی کا خلاصہ ہے۔
سالانہ دو اہم اسلامی تہوار منائے جاتے ہیں، عیدالفطر اور عیدالاضحی۔ مسلمان ان خوشی کے مواقع کو دو رکعت واجب نماز ادا کر کے مناتے ہیں، حالانکہ ہر تہوار کے جشن کا انداز مختلف ہوتا ہے۔
عیدالفطر رمضان کے ایک ماہ طویل روزے کے اختتام کی نشانی ہے۔ مسلمان اللہ کی نعمتوں کے لئے شکر ادا کرتے ہیں اور دو رکعت خصوصی نماز ادا کرکے اپنے روزوں کی تکمیل اور مقدس مہینے میں حاصل ہونے والی روحانی ترقی کا جشن مناتے ہیں۔
دوسری طرف، عیدالاضحی حج سے منسلک اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک ہے۔ جو لوگ حج ادا کرنے کے قابل ہوتے ہیں وہ اس موقع پر حج کو جاتے اور اسے پایہ تکمیل تک پہونچا تے ہیں۔ مزید برآں، عیدالاضحی میں جانور کی قربانی شامل ہوتی ہے، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اپنے عزیز بیٹے کو اللہ کے حکم پر قربان کرنے کو یاد دلاتی ہے۔ تاہم جو لوگ حج ادا نہیں کرتے یا پہلے ہی کر چکے ہیں، وہ اس قربانی کے عمل میں حصہ لیتے ہیں، حضرت ابراہیم کی سنت کی پیروی کرتے ہیں اور رضا الہی کے سامنے اپنی جبین نیاز کو جھکا کر عقیدت کی روح کو مجسم کرتے ہیں۔
تمام مذاہب کا با غور مطالعہ و مشاہدہ کرنے کے بعد، ہم اعتماد اور فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام انفرادی طور پر تہواروں اور زندگی بھر غریبوں کا خیال رکھنے کی تاکید کرتا ہے۔ یہ مال داروں کو مختلف طریقوں زکوة، فطرہ، اور عیدالاضحی کے دوران قربانی کا گوشت تقسیم کرنا وغیرہ جیسی چیزوں کے ذریعے غریبوں کی مدد کرنے کا حکم دیتا ہے،

عیدالفطر کے دوران مالداروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ غریبوں کو صدقۃ الفطر دیں، تاکہ ہر کس وناکس عید کی خوشی میں حصہ لے سکے۔ اسی طرح، عیدالاضحی کے دوران، قربانی کے جانور کے گوشت کا ایک حصہ غریبوں کو دیا جانا ضروری ہے۔ اگر کوئی ایسا نہ کرے تو قربانی قبول نہیں ہوتی۔ یہ تہوار غریبوں کے لئے اہم روزگار کے مواقع بھی فراہم کرتا ہے، جس سے وہ روزی کما سکتے ہیں اور خوشی میں شریک ہو سکتے ہیں۔ کارکن جانوروں کے لئے چارہ کا کاروبار کرکے اچھا معاش کر سکتے ہیں، اور کھال کی صنعت کو خام مال کی دستیابی سے فائدہ ہوتا ہے، جس سے مزید روزگار کے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔ شعبہ درآمد و برآمد بھی اس دوران گراں قدر کمائی حاصل کرتا ہے، اور یہ سب ملکوں کے ریونیو ڈپارٹمنٹ پر بھی مثبت اثر ڈالتا ہے۔
کچھ لوگوں کا یہ نظریہ ہے کہ حج پر خرچ ہونے والی رقم کو غریبوں کی مدد کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے۔ تاہم، یہ نقطہ نظر حج کے روحانی اور انسانی فوائد کو نظر انداز کرتا ہے۔ حج کرنے والے اکثر جانوروں کی قربانی دیتے ہیں، اور ان قربانیوں کا گوشت دنیا بھر کی محتاج برادریوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس طرح، حج پیسے کا ضیاع نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے سامنے جھکنے کا عمل ہے اور غریبوں کی مدد کرنے کا خوبصورت ذریعہ ہے۔
ان تمام اعمال کا ایماندارانہ اور منصفانہ معائنہ کرنے پر، ایک شخص دیکھ سکتا ہے کہ اسلام غریبوں کی مدد کرنے پر کتنا زور دیتا ہے۔ اگر کوئی اسلامی تعلیمات کا گہرائی سے مطالعہ کرے تو وہ اسلامی تعلیمات سے متأثر ہوکر حلقۂ بغوش اسلام ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
جب ہم ان تمام اعمال کا ایک ساتھ جائزہ لیتے ہیں، تو ایک واضح پیغام ملتا ہے کہ اسلام غریبوں کا خیال رکھنے پر بہت تاکید کرتا اور بے حد زور دیتا ہے۔ یہ ایمان کا ایک خوبصورت اظہار ہے، جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حقیقی خوشی ہمارے نعمتوں کو دوسروں کے ساتھ بانٹنے میں ہے۔