والد محترم اور نماز کے لیے تنبیہ و سختی
از: طہ جون پوری
نماز شریعت مطہرہ کا بنیادی فرائض میں سے ایک ہے۔ ایمان کے بعد، مذہب اسلام نے جس فریضے کی ادائیگی کا حکم اولین نمبر پر دیا ہے، وہ نماز ہی ہے۔ اسی لیے نماز کی فضیلت، قرآن و احادیث میں کثرت سے واقع ہے۔ یہی کیا کم ہے کہ نماز قائم کرنے والوں کی کامیابی کی ضمانت، قرآن مجید میں (قد أفلح المؤمنون) میں لی جاچکی ہے۔
انھیں سب اہمیت و فضیلت کی وجہ سے، والد محترم حافظ ابوبکر صاحب حفظہ اللہ و رعاہ مدرسہ ریاض العلوم گورینی بھی ہم لوگوں کو بچپن سے، جب کہ نماز ابھی فرض بھی نہیں ہوئی تھی، نا صرف اس کی تاکید کرتے تھے، بلکہ وقتاً فوقتاً حدیث (اضربوا اولادکم…) پر حسب ضرورت عمل بھی فرماتے تھے۔
نماز کے سلسلے میں یہ سختی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے، کہ جب میں حفظ قرآن کر رہا تھا، اس وقت عمر سات سے زائد ہی تھی، لیکن فجر کی نماز بلا ناغہ مسجد میں پڑھنی پڑتی تھی اور پھر فجر کی نماز کے بعد، متصلا حفظ کے ابتدائی استاد حافظ ابراہیم صاحب حفظہ اللہ کو سبق سنانے جانا پڑتا تھا۔ جب تک حفظ کی تعلیم چلتی رہی کیا مجال، کبھی نماز چھوٹ جائے۔بچپن ہی تو تھا، کون سا میں جنید وقت یا شبلی زمانہ تھا، کہ نماز نا چھوٹتی، کبھی اگر پیچھے بھی رہ گیا، تو تنبیہ لازمی تھی۔
حفظ سے فراغت کے بعد، فارسی سال اول میں بھی یہی حال رہا۔ عموماً جب طلبہ حفظ سے فارغ ہو کر، فارسی میں جاتے ہیں، تو خود کو کلاشنکوف نہیں، توپ سمجھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اب تو معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا، لیکن یہ تنبیہ و تاکید کا سلسلہ جاری رہا اور مسلسل نگرانی رہتی۔ پھر جب تین سال بعد، عربی دوم میں پہونچا (یعنی حفظ کے بعد یہاں تک پہونچنے میں کل چار سال لگ گئے) اور اسی سال پہلی مرتبہ تراویح سنائی تو اس سال تک بھی نماز میں کوتاہی پر، ضرب یضرب کی گردان دیکھنی پڑتی تھی۔ یہی نہیں، بلکہ والد صاحب حفظہ اللہ، جب کبھی ایک ماہ دو ماہ کے لیے سفر میں ہوتے، تو کبھی کبھار، جان بوجھ کر جنگلی سیار کی طرح لوڑھ کر، نماز بستر پر نکل جاتی۔
یادش بخیر، جس دن ایسا کرتا کہ نماز نکل جاتی، اس دن والدہ محترمہ (اللہ پاک صحت و عافیت سے رکھے)، تربیت اور سزا کے لیے ایسا کرتیں، کہ پہچانتی ہی نہیں۔ حالاں کہ ہر ماں اپنے بچے کو محبت سے ہی دیکھتی ہے۔ لیکن الہی بس۔ والدہ کا معمول، صبح تلاوت قرآن، تسبیحات، زاد السعید وغیرہ کا زمانہ دراز سے ہے، اس دن وہ متاثر رہتا، اور مسلسل سرزنش جاری رہتی، کیوں کہ نماز چھوٹ جاتی ہے۔ گاؤں کے ماحول میں گرم توے سے اترتی پھولی ہوئی روٹی اور چائے توڑنے والوں میں، میں بھی رہا ہوں، زبردست بیٹنگ کرتا۔ لیکن اس دن ان سب پر اثر رہتا اور ماں کی ممتا میں اس دن بھاری گراوٹ رہتی، لیکن بچپن تو بچپن، پھر بھی کھا پی کر گپن ہوجاتے۔ اور پھر دوپہر ہوتے ہوتے کہیں، والدہ خوش ہوتیں۔ والدہ محترمہ یہ سب اس لیے کرتیں تاکہ نماز چھوڑنے کا احساس ہو اور آئندہ نماز نا چھوڑے۔
خیر جب والد صاحب حفظہ اللہ سفر سے گھر واپس تشریف لاتے، تو خبر گیری ہوتی اور پھر نماز نا چھوڑنے کی تنبیہ اور نماز پڑھنے کی ضروری تاکید۔
عموماً مدارس میں جوں جوں طلبہ اوپر کے درجات میں جاتے ہیں، خود کو تیس مار خان سمجھنے لگتے ہیں، ویسے ایسے صالح و ابرار طلبہ بھی ہیں، جو بچپن سے اللہ میاں کی گائے ہوتے ہیں، تو ہم جوں جوں اوپر گئے، یہ سوچ پروان چڑھنے سے رہی، کیوں کہ تاکید و تنبیہ میں اضافہ ہوتا گیا۔ امتحان کے زمانے میں عموماً طلبہ تیاری کرتے ہیں اور سونے میں عادتاً تاخیر ہوجاتی ہے، اس لیے کبھی ایسا ہوتا کہ وقت پر نہیں اٹھتے، تو اس دن والد محترم ( اللہ ان کے سایہ کو بہ عافیت دراز تر فرمائے) اپنے رنگ و روپ میں ہوتے اور کہتے کہ پڑھنا ہے، تو سویرے سو جاؤ، اور فجر سے پہلے اٹھ کر پڑھو، یہ کیا کہ فرض میں کوتاہی ہوجائے۔
یہ حال ہم لوگوں کے ساتھ گھر میں رہتا اور ادھر مدرسہ میں بھی طلبہ کو نماز کے لیے خوب متنبہ کرتے۔ اس لیے ممکن ہے، کہ کسی کو بظاہر زیادتی بھی نظر آئے، لیکن وہ نماز کے لیے کسی بھی قسم کی کوتاہی کو برداشت کرنے کے روا دار نہیں۔ مجھے یاد آیاکہ ریاض العلوم گورینی کے ایک فاضل، جو بعد میں ایک بڑے مدرسہ میں استاد ہوئے، ایک دن مجھ کو فون کیا، اور کہنے لگے کہ یار آپ کے والد صاحب کی نماز کے لیے سختی نے نمازی بنا دیا ہے۔ اللہ اس نیکی کو والد صاحب کے حق میں قبول فرمائے۔
حقیقت یہی ہے کہ والد صاحب حفظہ اللہ نماز کے معاملے میں بہت تنبیہ کرتے ہیں، یہاں تک کہ، اب جب وہ ممبئی تشریف لاتے ہیں، تو بھی نماز کے اہتمام کے لیے مجھے تنبیہ فرماتے ہیں اور یہ میرے حق میں اچھا ہی ہے۔
شاید کہ اللہ تعالیٰ کو والد صاحب حفظہ اللہ کی یہ ادا پسند آگئی (اور اگر نا آئی ہو، تو اللہ پسند کرلے، اس کے یہاں تو جنت بڑی وسیع ہے، بس بہانہ کی ضرورت ہے،) ریاض العلوم گورینی سے فراغت کے بعد، دار العلوم دیوبند چھوڑ کر، جہاں کہیں تعلیم کے لیے گیا، وہاں کچھ نا کچھ امامت کی ذمہ داری دے دی گئی۔ حالاں کی میں اس سے بہت بھاگتا تھا، بلکہ ایک مرتبہ زمانہ طالب علمی میں شیخ الحدیث استاد محترم مفتی عبد اللہ صاحب بستوی، اللہ پاک آپ کو صحت و تندرستی عطا فرمائے کے پاس گیا، اور کہا: کہ کبھی کبھار دباؤ رہتا ہے کہ نماز پڑھاؤں اور میں بڑا لمپٹ قسم ہوں، کھلاڑی انسان ہوں، بس یوں ہی بے ہنگم سا رہتا ہوں، خود کو اس کا اہل نہیں سمجھتا، مجھے مفتی صاحب (اللہ جزائے خیر دے) نے ایک نصیحت کی، کم از کم مصلی پر جب پہونچو، تو صدق دل سے استغفار کرو، ان شاءاللہ اس کے اثرات ہوں گے، الحمد اللہ اس کا بڑا فائدہ ہوا۔
خیر جب جامعہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی مراد آباد میں گیا، تو وہاں بھی جزوی نماز کی ذمہ داری دے دی گئی، پھر مرکز المعارف ممبئی آیا، تو یہاں بھی کبھی کبھار مصلی پر جانا پڑتا، اور جب المعہد العالی الاسلامی، حیدرآباد گیا، تو وہاں بھی ذمہ داری دے دی گئی، بلکہ بڑے مولانا حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم العالیہ نے تو مزید ایک ذمہ داری دے دی تھی، کہ طلبہ کو صبح فجر کے وقت کچھ دنوں تک مسلسل اٹھاتا رہا اور اب یہاں ممبئی پچھلے آٹھ سالوں سے امامت کی خدمات انجام دے رہا ہوں۔ اور میں ہی کیا، مزید دو بھائی ممبئی میں امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
یہ والد صاحب کی توجہات، تنبیہات، تاکیدات کا یقیناً دنیوی نتیجہ ہے کہ اللہ نے اس میں لگادیا ہے۔ ورنہ ایں سعادت بزور بازو نیست۔ اللہ تعالیٰ والدین محترمین، کریمین کو صحت و عافیت کے ساتھ رکھے۔ ان کے سایہ کو ہم پر بہ عافیت دراز تر فرمائے۔ اور ہم سب بھائی بہنوں کو ان کی سعادت دارین کا ذریعہ بنائے۔
آمین ثم آمین یا رب العالمین۔