اچھا کام اور اچھی صفت دونوں ضروری ہیں
مدثر احمد قاسمی
اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور پھر ہر انسان کو مختلف صلاحیتوں سے نواز کر دنیا کو رہنے کے واسطے ایک خوبصورت جگہ بنایا ہے۔ اس بات کو تمام باشعور افراد تسلیم کرتے ہیں کہ الگ الگ انسانوں میں الگ الگ خوبیاں اور صلاحیتیں انسانی نظام حیات کو استحکام بخشتی ہیں اور یہ اللہ رب العزت کی حکمت کاملہ کی ایک بڑی نشانی ہے۔ عموما انسان دو خوبیوں کی وجہ سے ایک دوسرے سے ممتاز ہوتا ہے۔ ان دونوں خوبیوں کو ہم اچھے کام اور اچھی صفات سے جانتے ہیں۔ ان دونوں خوبیوں سے انسان اپنے آپ کو بقدر محنت اور جستجو متصف کرپاتا ہے۔
اس تمہید کے حوالے سے جب ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس بات کا علم ہوتا ہے کہ شریعت مطہرہ نے دونوں خوبیوں یعنی اچھے کام اور اچھی صفات کے حصول کی بھر پور حوصلہ افزائی کی ہے اور دونوں میں درجہ کمال تک پہنچنے کی تلقین کی ہے۔ اس کی بہترین مثال سورہ جمعہ کی وہ آیتیں ہیں جس میں اچھے نمازی بننے کی صفت سے متصف ہونے کی دعوت دی گئی ہے اور ساتھ ہی ایک اچھے کام یعنی رزق حلال کے لیئے تگ و دو کی بھی تلقین کی گئی ہے۔ چنانچہ سورہ جمعہ کی وہ آیتیں کچھ اس طرح ہیں: "اے مسلمانو ! جب جمعہ کے دن نماز کے لئے اذاں دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو ، اور خرید و فروخت چھوڑ دیا کرو ، اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے۔پھر جب نماز پوری ہوجائے تو اللہ کی زمین میں پھیل جاؤ ، اللہ کی روزی تلاش کرو اور اس کو کثرت سے یاد کرتے رہو ؛ تاکہ تم فلاح پاؤ۔” (سورہ جمعہ 9,10)
یہاں ایک عجیب بات یہ ہے کہ انسانوں میں سے ایک جماعت ایسی ہے کہ وہ مذکورہ قرآنی آیتوں کے بر خلاف اچھے کاموں اور اچھی صفات کو بالکل الگ الگ خانوں میں رکھ دیتے ہیں؛ چنانچہ موجودہ معاشرے میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے کام میں بہتری لانے کی دن رات کوشش کرتے ہیں اور ترقی کے منازل طے کرتے رہتے ہیں لیکن اس درمیان اخلاقیات جیسی اچھی صفات کو وہ پس پشت ڈال دیتے ہیں اور اپنے کام کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھتے ہیں۔یہاں ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں کچھ افراد ایسے بھی ہیں کہ وہ صرف صفات کے اعتبار سے ایک اچھا انسان بننے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے کاموں میں کم یا بالکل ہی دھیان نہیں دیتے ہیں۔ یہ طرز عمل بھی شریعت کی روح کے منافی ہے جیسا کہ مذکورہ آیت سے بھی یہ پہلو واضح ہے۔
یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ انسانی سوچ میں افراط و تفریط کی یہ کیفیت کہاں سے پیدا ہوتی ہے؟ اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ سوچ میں یہ تفاؤت مذہبی تعلیمات سے دوری اور بیزاری کی وجہ سے ہے؛ کیونکہ اگر مذہبی تعلیمات سے واقفیت ہوتی اور اس پر عمل کا جذبہ ہوتا تو انسان اعمال اور صفات دونوں اعتبار سے ایک معتدل اورمتوازن زندگی گزارتا۔
مضمون کی مناسبت سے یہاں ایک اہم پہلو کی وضاحت ضروری ہے کہ اگر کسی انسان نے کسی بھی میدان میں اپنے کام کو درجہ کمال تک پہونچایا ہے تو اس کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنے کام کے فائدے کو اپنے آپ تک محدود نہ رکھے بلکہ اس کے فائدے کو عام کرنے کی کوشش کرے۔ اسی طرح اگرکوئی کسی اچھی صفت کا مالک ہے تو اس صفت سے دوسروں کو فائدہ پہونچا نا اس کی اولین تر جیح ہونی چاہیئے۔ اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ انسان اپنے آپ تک محدود نہ رہے بلکہ وہ منبع فیض بنا رہے۔ چنانچہ ایک مشہور حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ: ” بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہونچائے۔” (ابن ماجہ)
یاد رکھیئے! ہمارے کاموں اور ہماری صفات سے لوگ اسی وقت مستفید ہونگے جب کہ ہم ان دونوں میدانوں میں اپنے آپ کو متواضع بنائیں گے؛ کیونکہ اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کی بیماری اور غرور و تکبر ہماری خوبیوں کی افادیت کو عام کرنے میں سب سے بڑی رکاؤٹ ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ ہم اچھے کاموں کو انجام دینے کے ساتھ اپنے آپ کو اچھی صفات سے بھی متصف کریں تاکہ ہم ایک متوازن زندگی گزار سکیں اور دوسروں کے لیئے بھی مشعل راہ بن سکیں۔
(مضمون نگار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر، روزنامہ انقلاب کے مستقل کالم نگار اور الغزالی انٹر نیشنل اسکول کے ڈائریکٹر ہیں۔)