مدثر احمد قاسمی
دنیا بھر سے حاجیوں کا قافلہ سعودی عرب کے لیئے رواں دواں ہے۔حج کی اس عظیم سعادت کے لیئے جانے والوں کا دل بیت اللہ اور روضہ اقدس کی زیارت کے لیئے مچل رہا ہے۔ یقینا جن کو اللہ رب العزت نے اس مالی اور جسمانی عبادت کے لیئے قبول کیا ہے،وہ دنیا کے خوش نصیب ترین افراد میں سے ہیں؛ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس نے حج کیا اور فحش کلامی نہ کی اور فسق نہ کیا تو وہ (گناہوں سے پاک ہو کر) ایسا لوٹاجیسے اس دن کہ ماں کے پیٹ سے پید اہواتھا۔(صحیح) انسان کے لیئے اس سے بڑی اورکیا سعادت ہوسکتی ہے کہ وہ کسی ایک عمل کی وجہ سے گناہوں سے پاک صاف ہو جائے!
حج کے تعلق سے کچھ لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اس میں کثیر رقم کا صرفہ غیر عقلی ہے کیونکہ اس رقم کے ذریعے بہت سارے خیراتی امور انجام پا سکتے ہیں۔ حج کی فرضیت سے صرف نظر کرتے ہوئے، اگر اس اعتراض کو عقلی اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو حج کی اہمیت بآسانی سمجھ میں آجاتی ہے؛ کیونکہ دنیا بھر میں یہ عادت عام ہے کہ انسان اگر سست پڑ جاتا ہے، طبیعت اچاٹ ہو جاتی ہے یا جسمانی طور پر کمزور پڑ جاتا ہے تو کبھی خود یا احباب کے مشورے سے اور کبھی ڈاکٹر کے مشورے سے دور دراز اور پر فضا مقام کا دودہ کرتا ہے۔ اس سے اس کو دو فائدے ملتے ہیں: ایک تو وہ ترو تازہ ہو جاتا اور دوسرا اس کی صحت پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ بعینہ حج کے ذریعے بھی انسان مذہبی اعتبار سے تر و تازہ ہو جاتا ہے اور روحانی اعتبار سے مضبوط ہو جاتا ہے۔لہذا جس طرح حصول تازگی وصحت کے نظریئے سے دنیاوی سفر کو فضول خرچی نہیں قرار دیا جاسکتا بالکل اسی طرح مذہبی اور روحانی فوائد کے حصول کے لیئے حج کے سفر کو غیر ضروری قرار دینا غیر معقول ہے
جہاں تک شرعی اعتبار سے حج کی فرضیت کا سوال ہے تو فقہاء یہ لکھتے ہیں کہ اگر کسی شخص کی ملکیت میں اتنی رقم ہو جس سے اس پر حج فرض ہو جائے، یعنی جن دنوں میں حج کے قافلے جاتے ہیں یا حج کی درخواستیں وصول کی جاتی ہیں ان دنوں میں کسی کے پاس اتنی رقم ہو کہ سفرِ حج کی آمد و رفت کے اخراجات، وہاں رہائش کے انتظام اور کھانے پینے کے خرچے اور دورانِ سفر اہل و عیال کے نفقے وغیرہ کے لیے کافی ہو، اس پر لازم ہے کہ وہ حج ادا کر لے، اس میں بلا وجہ تاخیر نہ کرے، لیکن اگر اس نے وہ رقم کسی دوسرے مصرف میں خرچ کر دی تو ایسے آدمی پر حج بدستور فرض رہتا ہے، حج کا ذمہ ساقط نہیں ہوتا، بلکہ حج کی ادائیگی اس کے ذمہ میں باقی رہے گی۔ اس وجہ سے کوئی بھیدلفریب عنوان اور حیلہ اس باب میں قابل قبول نہیں ہے۔
لہذا حج کے اس سفر کو جس میں انسان مالی اور جسمانی قربانی دیتا ہے اور جس سفر کو انسان کی زندگی کا ماحصل قرار دیا جاسکتا ہے، کسی بھی اعتبار سے نامکمل نہیں ہونا چاہئیے۔ اس کے لیئے حج پر جانے والوں کے ساتھ، رشتہ داروں اور احباب کو بھی محتاط طرز عمل اپنا نا چاہئیے۔ جس طرح اللہ کے گھر کی زیارت کرنے والوں کی توجہ صرف اس بات پر رہے کہ وہ حج کے تمام ارکان کو بہتر ڈھنگ سے سیکھ لیں اور مختلف مواقع پر پڑھی جانے والی دعاؤں کو یاد کر لیں، اسی طرح رشتہ دار و احباب عازمین سفر کی اس طرح اعانت کریں کہ ان کا سفر بامقصد بن جائے اور وہ بامراد واپس لوٹیں۔ عازمین حج اور ان کے احباب دونوں کے پیش نظر یہ بات رہنی چاہیئے کہ ان سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہو جائے جس سے کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی درجے میں حج کی روحانیت متاثر ہوجائے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ مقبول حج کے لیئے یہ ضروری ہے کہ اللہ رب العزت کا کوئی بھی حکم نہ ٹوٹے۔
آج کل عازمین حج کے کچھ قریبی رشتے داروں سے جو ایک لغزش سرزد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ حاجیوں سے مقدس سرزمین سے اپنی پسند کی چیز لانے کی فرمائش کرتے ہیں۔ اس طرح عازمین کے پاس فرمائشوں کی ایک لمبی فہرست تیار ہو جاتی ہے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ جس عازم حج کے پاس فرمائشوں کی ایک لسٹ ہو وہ وہاں عبادت میں مکمل توجہ کیسے مبذول کرسکتا ہے۔ اسی طرح ائیر پورٹ پر اندر داخل ہونے تک، فوٹو اور ویڈیو کا جو ایک تسلسل رہتا ہے وہ بھی حج کی روحانیت سے کہیں میل نہیں کھاتا۔ خدارا! عازمین حج کے احباب و رشتے دار دینی شعور کو بیدار کریں اور کوئی ایسا عمل نہ کریں جس سے زندگی کے یہ قیمتی لمحات ہماری بے حسی کی نذر ہوجائیں۔
عازمین حج اگر وطن سے لے کر مقامات مقدسہ تک ذیل کی صرف اسی ایک آیت پر غور کر لیں اور اس پر عمل کر لیں تو اللہ رب العزت کی ذات سے قوی امید ہے کہ انہیں حج مقبول اور مبرور نصیب ہوجائے: "حج کے چند متعین مہینے ہیں، جو اِن میں ( احرام باندھ کراپنے آپ پر ) حج لازم کرلے تو پھر وہ حج میں نہ کوئی فحش بات کرے، نہ گناہ اور نہ جھگڑا اور تم جو بھی اچھے کام کرتے ہو، ﷲ اس کو جانتے ہیں اور(ہاں ) راستہ کا توشہ لے لیا کرو، بہترین توشہ تقویٰ ہے، اور اے اصحابِ عقل و دانش! مجھ ہی سے ڈرتے رہا کرو۔” (البقرہ:197)
حجاج کرام کو مقامات مقدسہ میں بطور خاص اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ وہ وہاں عفو و درگزر سے کام لیں اور کسی بات پر بھی کسی سے نہ الجھیں۔ سفر کے ساتھی، بطور خاص میاں بیوی ایک دوسرے کا خوب خیال رکھیں اور زندگی کی پچھلی الجھنوں کو ہمیشہ ہمیش کے لیئے مدفون کر دیں۔ حجاج کرام کی کثیر تعداد کی وجہ سے وقتی پریشانی ایک فطری بات ہے لیکن اس پریشانی کو صبر کے ساتھ جھیل لینے ہی میں سفر کے اچھے نتائج کی قوی امید ہے۔اگر حجاج نے ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھ لیا تو ان کا حج خیر کا ذریعہ ثابت ہوگا اور ایک دنیا مستفیض ہوگی۔(ان شاء اللہ)