جمہوریت میں اکثریت کے جذبات کو مجروح کرنا نقصاندہ ہوتاہے
محمد برہان الدین قاسمی
میں پہلے ہی محسوس کر رہا تھا کہ ہمارے معزز مولانا کے سیاسی بیانات اور ایک فہرست کا باضابطہ شائع کرنا نہ صرف ان کی شخصیت کے لیے بلکہ مجموعی طور پر مہاراشٹر کے انتخابات کے لیے بھی بہت نقصان دہ ہوگا۔ مولانا کی ٹیم میں شامل ہونے کی دعوت مجھے بھی دی گئی تھی۔ میں نے نہ صرف اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کیا بلکہ جس شخصیت نے مجھ سے بات کی، انہیں واضح طور پر یہ بھی بتایا کہ میں ان کے خیالات سے کیوں متفق نہیں ہوں اور یہ خیالات انتخابات پر کیا منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔
اب انتخابی نتائج نے میرے خدشات کو درست ثابت کر دیا ہے، جس سے میں افسردہ اور تکلیف میں ہوں۔ یہ سیاست کا ایک عام اصول ہے کہ اکثریت اور اقلیت والے جمہوری نظام میں، اقلیت کی طرف سے کوئی بھی ایسا نعرہ یا عمل جو اکثریت کے جذبات کو بھڑکا دے، اقلیت کے حق میں انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ سیاست میں جذباتیت کے بجائے حکمت عملی اور عملی اقدامات ہی کامیابی کی کنجی ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ ہمیں یہ آسان سی بات سمجھنے میں اتنی دشواری کیوں پیش آتی ہے اور ہم جذباتی سیاست سے کب باہر نکل پائیں گے؟
مہاراشٹر کے انتخابی نتائج پر نظر ڈالیں تو بی جے پی کی کامیابی کے پیچھے مائکرو پلاننگ، زمینی سطح پر مسلسل کام، ہر فرد تک رسائی، اور عین انتخابات سے قبل وزیر اعلیٰ کی طرف سے خواتین کے اکاؤنٹ میں رقم جمع کرنے جیسے اقدامات اہم عوامل بنے۔ دوسری جانب، کانگریس کی ناقص منصوبہ بندی، MVA اتحاد کی کمزوری، اور جناب ادھو ٹھاکرے و جناب شرد پوار کا پارلیمانی انتخابات کی کامیابی پر غیر ضروری اعتماد، شکست کے بڑے اسباب تھے۔