مرے ہاتھ لگ گئی ہے ترے گھر کی کچھ سیاہی

Eastern
Eastern 7 Min Read 16 Views
7 Min Read

 عبدالعلیم قاسمی بارہ بنکوی

مضمون نگار  شانتی نکیتن  انڈین اسکول دوحہ، قطر میں اسلامیات اور عربی کے استاذہیں۔ وہ  ایچ ای آر ایف کانپور میں انگلش زبان وادب کے استاذ رہ چکےہیں۔ 

پھر ہوش رہ گیا نہ مجھ کو ذرا بھی ساقی

اک ہوش بس یہی تھا تجھ پر نظر پڑی تھی

 سیاہی یا کالا رنگ عموما نا پسند کیا جاتا ہے لیکن جب وہی سیاہی محبوب کی آنکھوں میں آجائے تو اچھے اچھے بینوں کو نابینا کر دے، وہی سیاہی جب بلال حبشی میں اپنا جلوہ بکھیرے تو اجلے جلے مغربیوں کے گورے گورے سورج بھی غروب ہوتے نظر آئیں۔ وہی سیاہی جب زلف پیمبر میں سج جائے تو شب کی معراج ہوجائے۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم )

وہی سیاہی جب انسانی دنیا کے علاوہ کسی غلاف میں آجائے تو نہ جانے کتنے سیاہ دلوں کو سفید کر ڈالے وہی سیاہی جب کسی پتھر سے منسلک ہوجائے تو نہ جانے کتنے پتھر دلوں کو موم کر ڈالے۔

مری زندگی کے سارے وہ چمک گئے ستارے

مرے ہاتھ لگ گئی ہے ترے گھر کی کچھ سیاہی

 بصارتی دنیا کے لئے گارے اور پتھر کی ایک چودہ پندرہ فیٹ بلند، چھوٹی سی معکب نما عمارت ہے، لیکن بشارتی اور بصیرتی دنیا کے لئے یہ معکب نہیں مسلمانوں کے کعبہ سے عبارت ہے، امت مسلمہ کا قبلہ ہے یا کہئے قلب ہے جو ہر لمحے طواف کی دھڑکنوں سے دھڑکتا رہتا ہے۔

بڑے خوش نصیب ہیں وہ جو خلوص نیت  سے اس کی زیارت سے شرف یاب ہوچکے ہیں بڑے خوش نصیب ہیں وہ بھی جو اس کی زیارت کی پاکیزہ تمنا کی شمع دل میں روشن کئے ہوئے ہیں لیکن اس پار سے اس پار تک جانے میں انتظامات کی نہریں، حالات کی لہریں حائل ہیں ۔ مگر بڑے ہی بدنصیب ہیں وہ جو تمام تر سہولیات اور انتظامات کے باوجود شوقِ زیارتِ کعبہ کا چراغ جلانے  سے محروم ہیں۔

کعبہ کیا ہے الله کا گھر ہے، بیت اللہ ہے، بیت العتيق ہے، مسجد الحرام ہے، کرہ ارض پر پہلی عبادت گاہ ہے،  سجدہ آدم کا گواہ ہے، تعمیر ابراہیمی کا کمال ہے، مساعدت اسماعیلی کی مثال ہے ۔ایک وادی غیر ذی زرع کا جمال ہے، ابابيل کی یاد ہے ، أصحاب الفیل کی روداد ہے، مرکز تجلیات ہے، منبع سکون وبرکات ہے، رندان وحدت کا میکدہ ہے، قصہء بطلانِ بتکدہ ہے، جاء الحق وزهق الباطل کی ایک کھلی تفسیر ہے، صرف اور صرف توحید کی تعبیر ہے، عربیت وعجمیت سے پاک،نخوت وعصبیت سے پرے، یک نقطائ مسکن ہے، امیر وغریب کا پاکیزہ چمن ہے۔الگ الگ رنگ و نسل، مسلک ومشرب ، تہذیب وتمدن، زبان وبیان کو یکجا کرتا یہ بیت اللہ کا صحن ہے

یہاں رحمتوں کا سایہ، یہاں نور تا قیامت

یہاں امن کی ہے بارش اے حضور! تا قیامت

سبحان اللہ!  کیا گھر ہے!!! گھر کیا؛ کمزوروں، بے کسوں اور درد کے ماروں کا در ہے، عاصیوں اور گنہگاروں کی معافی کا محور ہے، عاشقوں اور متقیوں کا مستقر ہے۔

کمال ہے کہ ظاہری زرخیزی سے خالی، پہاڑوں کے بیچ بسا ایک صحرائ ٹکڑا، کیسے باطنی زرخیزی اور روحانی زراعت کا سامان فراہم کر رہا ہے۔ کبھی کا کہسار، تا قیامت گلزار بن گیا۔ چلچلاتی دھوپ اور بکہ کا وہ صحرا اب مکہ کا سہرا بنا ہوا ہے، یہ دین حنیف کا علمبردار ہے، اعتصام بحبل اللہ کی پکار ہے، شانِ احرام ہے، اس كا ذرہ ذرہ پر احترام ہے، واسطہء منزلِ مقصود ہے، جہاں رحمتوں کا ورود ہے. شب کے اندھیرے میں جائیے، دن کے اجالے میں جائیے، اِس پہر جائیے، یا اُس پہر جائیے، اِس طرف جائیے، یا اُس طرف جائیے، جس وقت بھی جائیے، اور جس طرف بھی جائیے، ہر وقت ہر طرف لبیک لبیک کی صدائیں، اللہ اکبر، اللہ اکبر، کی ندائیں آپ کی شیریں سماعتوں کا استقبال کرتی ملیں گی، ہر لمحے  پروانوں کا ہجوم شمع کعبہ کے گرد گھوم رہا ہوگا۔ اللہ اللہ!!  کیا کیا مناظر ہیں کہیں تسبیح وتہلیل، کہیں ذکر ودعا، کہیں آہ وزاری، تو کہیں خاموش اشکباری، کوئ ابتداء رمل میں ہے تو کوئ انتہاء عمل میں ہے۔

کوئ پہلی پہلی بار آیا ہے تو قدم بڑھ نہیں رہے ہیں کوئ الوداعی  دہلیز پر ہے تو قدم اٹھ نہیں رہے ہیں۔

جو خرد کے ہیں پچاری انہیں کیا پتہ یہ کیا ہے؟

یہ جنوں کی خوش نصیبی تری دلکشی کو سمجھا

تعجب ہے اس گھر میں ایسی کون سی جاذبیت ہے کہ پورے کا پورا عالم اسلام اس کی زیارت کا متمنی رہتا ہے، ہر اچھا مسلمان اس کی ملاقات کا شائق رہتا ہے اس کی دید کا شدید منتظر رہتا ہے یہی وجہ ہے اگر آپ حرم کے راستہ پر کبھی کھڑے ہوجائیں تو آپ اپنی خود کی آنکھوں سے دیکھیں گے  ایک محبت ہے جو دور دور سے چلی آرہی ہے،  ہمت ہے کہ بوڑھوں کو جوان کئے دے رہی ہے جذبہ ہے کہ جوانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہوا جا رہا ہے۔شوق ہے کہ بچوں کو بھی پروانہ بنائے دے رہا ہے۔حاضری ہے کہ لبیک لبیک بنی جا رہی ہے، پہلی پہلی ملاقات ہے کہ اشکوں میں ڈھلی جا رہی ہے، دیوانگی ہے کہ چکر پے چکر لگائے جا رہی ہے، جنوں ہے کہ حجر اسود کا بوسہ بنا جا رہا ہے،عشق ہےکہ کعبہ سے لپٹا جا رہا ہے، اقرار جرم  ہے کہ ملتزم سے چمٹا جا رہا ہے، مقام ابراہیم ہے کہ شکرانہ کا باغات بنا جا رہا ہے، پیاس ہے کہ زمزم دلاسے دے رہا ہے رب کی طرف دوڑ ہے کہ صفا ومروہ کی سعی بنی جا رہی ہے۔

ایک منظر ہے جو سارے مناظر پھیکے کئے دے رہا ہے۔ ہر ملاقات ، اگلی ملاقات کی تمنا کے جگنو جگمائے

وقتِ وداع دعا تھی لب پہ یہی صدا تھی

هَلْ مِن مزيد ساقى هل من مزيد ساقى

Share This Article
1 Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Trending News

اے شہر آرزو تجھے کہتے ہیں الوداع

اے شہر آرزو تجھے کہتے ہیں الوداع (دو روزہ MOM (مرکز آن

Eastern Eastern

نئے حالات میں مرکز المعارف کا ایک اور انقلابی اقدام

نئے حالات میں مرکز المعارف کا ایک اور انقلابی اقدام محمد عبید

Eastern Eastern

مدارس میں بنیادی تعلیم کی بہتری ممکن، مگر خودمختاری میں مداخلت نہیں: سپریم کورٹ

مدارس میں بنیادی تعلیم کی بہتری ممکن، مگر خودمختاری میں مداخلت نہیں:

Eastern Eastern

مہاوکاس اگھاڑی یا مہایوتی؟ مہاراشٹر میں کون لے جائے گا بازی

مہاوکاس اگھاڑی یا مہایوتی؟ مہاراشٹر میں کون لے جائے گا بازی محمد

Eastern Eastern

حضرت سلمان فارسی دین فطرت کی تلاش میں

حضرت سلمان فارسی دین فطرت کی تلاش میں محمد توقیر رحمانی اسلام

Eastern Eastern

حق و باطل کی  معرکہ آرائی  روز اول  سے ہے

حق و باطل کی  معرکہ آرائی  روز اول  سے ہے محمد توقیر

Eastern Eastern

Quick LInks

عصری اداروں میں مدرسے کے طلبہ کی مایوسی: ایک حقیقت پر مبنی جائزہ

عصری اداروں میں مدرسے کے طلبہ کی مایوسی: ایک حقیقت پر مبنی

Eastern Eastern

ٹرمپ کی جیت اور فلسطین کے حوالے سے کچھ خدشات

ٹرمپ کی جیت اور فلسطین کے حوالے سے کچھ خدشات خورشید عالم

Eastern Eastern

_جی نہ چاہے تھا أسے چھوڑ کے آنے کو! _

_جی نہ چاہے تھا أسے چھوڑ کے آنے کو! _ از :

Eastern Eastern