بہار میں ایک صدی سے زائد عرصے کے بعد ہونے والے زمین سروے کے موقعے پر مسلمان عقلمندی سے کام لیں اور علماء رہنمائی فرمائیں
محمد عبید اللہ قاسمی
صوبہ بہار میں حالیہ زمین سروے کے اعلان کے بعد لوگ اپنی زمینوں کے کاغذات کو مرتب کرنے، وَنشاولی (شجرہِ نسب) کے فارم کو پُر کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ بہار میں یہ زمین سروے تقریباً 110 سالوں کے بعد ہورہا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس طویل عرصے میں دادا پڑدادا، لکڑ دادا کے نام سے جو زمینیں چلی آرہی ہیں ان زمینوں کا باضابطہ بٹوارہ ان کے زندہ وارثین کے درمیان ہوجائے اور ان کے علیحدہ علیحدہ زمین کھاتے کھل جائیں اور پھر یہ تفصیلات آن لائن بھی دستیاب کرادی جائیں تاکہ طرح طرح کے جھگڑے ختم ہوں اور زمین خریدنے والوں کو جو دھوکے ہوتے ہیں اس کا سلسلہ بھی بند ہو۔
حکومت سے منظور ہونے کے بعد اس ونشاولی اور شجرہِ نسب/Family tree کا ایک ممکنہ فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ آئندہ چل کر شہریت کے بڑے ثبوتوں میں سے ایک ثبوت بن سکتا ہے۔
بہار بلکہ پورے ملک میں چونکہ "دختری حصہ” (اپنی بہن، والد کی بہن، دادا کی بہن کا حصہ) نہ دینے کا رواج ہے لہذا لوگ ونشاولی میں بہنوں کو شامل کرنے کے بارے میں سخت پس وپیش میں مبتلا ہیں جبکہ قانونی طور پر ان کو شامل کرنا یا ان سے NOC لینا ضروری ہے۔ بہنوں کو شامل کرنے کے معاملے پر اس بات کا شدید اندیشہ ہے کہ بڑے پیمانے پر جگہ جگہ اختلافات بڑھینگے اور سخت لڑائی جھگڑے ہونگے۔ مسلمانوں کے لئے اس سے بچنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ وہ بہنوں کو ونشاولی میں شامل کرکے ان کا حصہ دیدیں یا ان کی مرضی سے ان سے NOC حاصل کر لیں جس میں بہن اپنے حق سے دستبرداری لکھ کر دیدے۔ اس طرح وہ ملک کے قانون کی گرفت سے بچینگے اور آخرت کے سخت عذاب سے بھی بچینگے۔
ملک میں جس طرح ہندو پرسنل لاء کے مطابق بہنوں کو حصہ ملتا ہے بلکہ 2005 سے بہن اور بھائی دونوں برابر حصے کے حقدار ہوگئے ہیں اسی طرح مسلم پرسنل لاء کے مطابق یعنی شریعت کے مطابق بہن یعنی اپنے مرحوم والد کی بیٹی کو والد کی جائداد سے حصہ ملتا ہے اور وہ حصہ بھائی کے مقابلے میں نصف ہوتا ہے۔ یہی قرآنِ مجید میں حکم دیا گیا ہے اور مسلمانوں کے بارے میں یہی ملکی قانون بھی ہے۔اگر بھائی نے بہن کے حصے کی زمین یا کسی نے بھی دوسرے کی زمین ناحق لے لی اور اس پر قبضہ کرلیا تو ملک کے قانون کے مطابق تو وہ مجرم ہے ہی، ساتھ ساتھ وہ اللہ تعالی کے نزدیک بھی مجرم ہے اور آخرت میں سخت عذاب کا مستحق ہوگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: "مَن أَخَذَ شِبْرًا مِنَ الأرْضِ ظُلْمًا، فإنَّه يُطَوَّقُهُ يَومَ القِيَامَةِ مِن سَبْعِ أَرَضِينَ۔” (بخاری ومسلم) یعنی جس نے کسی شخص کی ایک بالشت زمین بھی ناحق لے لی تو قیامت کے دن سات زمینوں کی گہرائی تک اس زمین کا طوق بناکر اس کی گردن میں ڈال دیا جائے گا۔
ایک دوسری حدیث ہے۔”وعن أَبي أُمَامَة الباهِليِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّه ﷺ: أَنا زَعِيمٌ ببَيتٍ في ربَضِ الجنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ المِرَاءَ وَإِنْ كَانَ مُحِقًّا” (ابوداؤد) یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جنت کے بیچ میں اس شخص کے لئے میں گھر کی ضمانت لیتا ہوں جس نے حق پر رہنے کے باوجود لڑائی جھگڑے کو چھوڑ دیا۔ لڑائی جھگڑے سے بچنے کی خاطر اپنا حق چھوڑ دینے والے شخص کے لئے جنت کی یہ ضمانت کسی معمولی شخص کی طرف سے نہیں ہے بلکہ اس کی طرف سے ہے جس پر وحی نازل ہوتی تھی اور جو دنیا کا سب سے سچا شخص تھا اور تمام انبیاء کا سردار تھا۔
یقیناً انسان شرعاً اپنا حق لے سکتا ہے لیکن جہاں اس کی وجہ سے لڑائی جھگڑا ہو وہاں اپنا حق چھوڑ دینا اور صبر کر لینا اعلی درجے کی بات ہے جیساکہ اوپر حدیث میں فرمایا گیا۔ لیکن کسی کا حق مار لینا اور زمین ہڑپ کر لینا بہت بڑا ظلم ہے اور آخرت میں ایسے شخص کو سخت عذاب ہوگا۔ دوزخ کی آگ بہت شدید ہے جس کا تصور بھی دنیا میں مشکل ہے۔ "جاء رجل إلى ابن مسعود رضى الله عنه فقال له : حدثنا عن النار كيف هي؟! فقال ابن مسعود رضى الله عنه : لو رأيتها لزال قلبك من مكانه! (ابن ابی الدنیا) یعنی عظیم صحابیِ رسول حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس کے آکر ایک شخص نے پوچھا کہ آپ مجھے دوزخ کے بارے میں بتائیں کہ اس کی آگ کیسی ہوگی؟ حضرت ابن مسعود نے فرمایا کہ اگر تم اس کو دیکھ لو تو تمہارا دل اپنی جگہ سے اکھڑ جائے۔
سروے کے اعلان کے بعد اس بات کا اندیشہ بڑھ گیا ہے کہ رشتوں میں سخت تلخی آئے گی اور لڑائی جھگڑے ہونگے جو ظاہر ہے کہ سکون کو غارت کردے گا اور بڑے نقصانات کا موجب ہوگا۔ لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ شریعت اور قانون پر عمل کرتے ہوئے بہنوں کو فراخ دلی سے ان کا واجب حصہ واپس کردیں یا پھر ان سے NOC لے لیں۔ ایسا کرنے سے ان کو دنیا میں بھی سکون ملے گا اور قانونی گرفت کے خوف سے آزاد رہینگے اور آخرت کی ہمیشہ والی زندگی میں بھی سکون ملے گا کہ عذاب سے بچینگے۔ دنیا میں جو کچھ ہے فانی ہے۔ آج جو زمین ہماری کہلاتی ہے اس کے دعویدار ماضی میں ہزاروں رہے ہونگے جو آج قبروں میں ہیں اور مستقبل میں بھی ہزاروں ہونگے اور وہ بھی قبروں میں جائینگے اور خود ہم بھی قبر کے گڈھے کی طرف لمحہ بلمحہ بڑھ رہے ہیں۔ألهاكم التكاثر۔ حتى زرتم المقابر۔ (القرآن) یعنی زیادہ مال وجائداد جمع کرنے کے نشہ نے تمہیں اللہ کی فرمانبرداری سے غافل کردیا ہے اور پھر اسی حالتِ غفلت میں تم قبر کے گڈھوں میں گر پڑتے ہو۔ لہذا دنیا کی چھوٹی اور فانی چیز کے لئے جو ناحق طریقے سے حاصل کی گئی ہو، اپنی عاقبت اور آخرت برباد کرنا عقلمندی کا کام نہیں ہے۔ جس کا جو حق ہے وہ اسے حاصل کرے اور اس پر قناعت کرلے اور جو دوسرے کا حق ہے وہ اسے واپس کردے۔
اعلانِ سروے کے بعد کے نئے حالات میں علماءِ دین اور ملی تنظیموں کی طرف سے مسلمانوں کو نصیحتیں اور اپیلیں جاری ہونی چاہئیں۔ مساجد میں ائمہِ کرام اور خطباء مسلمانوں کو سروے کے بارے میں قانون اور شریعت پر عمل کرنے کی تلقین کریں اور ان کو ہر طرح کے لڑائی جھگڑے سے اجتناب کرنے کی ترغیب دیں۔ جگہ جگہ کیمپ لگاکر بہار میں مسلم تنظیمیں اور بالخصوص اگر امارتِ شرعیہ اور جمعیت علماء ہند اس بارے میں متحرک ہوجائیں اور اصلاحِ معاشرہ کا یہ بڑا کام انجام دیں تو عورتوں کو ان کا حق ملے گا، مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد دنیا اور آخرت کے عذاب سے بچ جائے گی، عدالتی مقدمات کی پریشانیوں سے آزاد ہوجائے گی اور ذہنی سکون کی دولت اور اس کی لذت سے بہرہ ور ہوگی۔ اللہ تعالی کا بہت تاکیدی وعدہ ہے کہ جو مسلمان مرد وعورت اس کی فرمانبرداری کرینگے ان کی زندگی خوشگوار بنادی جائے گی مَنْ عَمِلَ صَٰلِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُۥ حَيَوٰةً طَيِّبَةً ۖ… (القرآن) ظاہر ہے کہ اس فرمانبرداری میں بہنوں کو ان کا حصہ واپس کرنا بھی شامل ہے۔زمین سروے کے موقعے پر مسلمانوں کی صحیح رہنمائی وقت کی پکار ہے اور اس کا شدید تقاضا ہے۔ دعاء ہے کہ اللہ تعالی مسلمانوں کو عقلِ سلیم دے، دین اور دنیا دونوں جہان میں سرخروئی عطا کرے اور پاکیزہ زندگی بخشے!
(مضمون نگار، مفتی محمد عبیداللہ قاسمی دارالعلوم دیو بند کے شعبہ انگریزی کے سابق استاذ اور فی الحال دہلی یونیورسٹی کے ڈاکٹر ذاکر حسین کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔)