فلسطینی رہنما اسماعیل ہنیہ کی تہران میں شہادت: ایرانی سیکیورٹی پر سوالات اور فلسطینی تحریک کی مضبوطی
ای سی نیوز ڈیسک
31 جولائی 2024
تہران، ایران — فلسطینی رہنما اسماعیل ہنیہ کی تہران میں شہادت نے نہ صرف غم و غصے کی لہر دوڑادی ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی ایرانی سیکیورٹی ایجنسیوں کے حوالے سے بھی سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔ ہنیہ، جو حماس کے اعلیٰ رہنما اور غزہ کے حکمران تھے، ایران کی دعوت پر صدارتی حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران آئے تھے، جہاں انہیں ان کے ایک محافظ کے ساتھ نشانہ بنایا گیا۔
حملہ اس وقت ہوا جب ہنیہ تہران کے ایک معروف علاقے میں موجود تھے۔ اطلاعات کے مطابق، نامعلوم مسلح افراد نے ان پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوئے اور بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔ حماس نے فوری طور پر اس حملے کا الزام اسرائیل پر عائد کیا ہے، جو کہ فلسطینی رہنما کی جان کے درپیش خطرات کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ قتل ایران کے نئے صدر مسعود پزشکیان کی حکومت پر سخت تنقید کا باعث بنا ہے، جنہیں مغربی مفادات کے حامی سمجھا جاتا ہے۔ نقادوں کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ایک اہم اسلامی رہنما کی سیکیورٹی میں شدید ناکامی کی علامت ہے، جس نے ایرانی سیکیورٹی ایجنسیوں کی قابلیت پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ہنیہ کے قتل کو ایران کے سابق صدر ابراہیم رئیسی اور ان کے وزیر خارجہ کے قتل کے ساتھ جوڑتے ہوئے ایک وسیع تر نمونے کی شکل میں دیکھا جا رہا ہے۔
اس المناک واقعے کے باوجود، فلسطینی آزادی تحریک نے ہنیہ کی قربانی کو ایک طاقتور پیغام قرار دیا ہے۔ تحریک کے رہنماؤں نے واضح کیا ہے کہ ایسی قربانیاں ان کے عزم کو مزید مضبوط بناتی ہیں۔ ہنیہ کی موت کو ایک اہم نقصان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی اسے فلسطینی جدوجہد کی حوصلہ اور استقامت کا ثبوت بھی مانا جا رہا ہے۔
اسماعیل ہنیہ اپنے معتدل اور عملی قیادت کے لیے جانے جاتے تھے۔ 2019 میں غزہ سے قطر منتقل ہونے کے بعد، وہ عالمی سطح پر فلسطینی حقوق کے لیے آواز بلند کرتے رہے۔ ان کی قیادت میں حماس نے کئی اہم کامیابیاں حاصل کیں، اور وہ فلسطینی عوام کے درمیان ایک مقبول شخصیت تھے۔ ان کی موت پر غزہ اور مغربی کنارے میں زبردست غم منایا جا رہا ہے، جہاں ان کی بہت عزت کی جاتی تھی۔
ابھی تحقیقات جاری ہیں، اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ ہنیہ کی موت کا اثر علاقے میں کس طرح گونجے گا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ممکنہ طور پر خطے میں تناؤ میں مزید اضافہ کر سکتا ہے، خاص طور پر اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری کشیدگی کے پس منظر میں۔
اس واقعے نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ فلسطینی عوام اپنے رہنما کی قربانی کو بھولیں گے نہیں، اور وہ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ ہنیہ کی زندگی اور موت دونوں فلسطینی تحریک کی علامت بن چکی ہیں، اور ان کی یاد ہمیشہ زندہ رہے گی۔