انگریزی میں مہارت رکھنے والے علماء قیمتی ہیرے ہیں: مسلم تنظیمیں اور مدارس ان کو ضائع نہ کریں
(مفتی ڈاکٹر) محمد عبید اللہ قاسمی
عرصہِ دراز تک ملت کو اس بات کی بہت تمنا تھی اور سخت ضرورت بھی تھی کہ علماء کی ایک تعداد ایسی تیار ہو جو انگریزی زبان میں مہارت رکھتی ہو تاکہ اس کے ذریعے وہ دین کی ان اہم خدمات کو انجام دے سکے جو عام علماء انجام دینے پر قادر نہیں ہیں اور بڑا خلاء پُر کرسکے. پہلے علماء کے زبان وقلم سے شاندار انگریزی کے صدور کا تصور تقریباً ناممکنات میں شمار ہوتا تھا. مگر مرکز المعارف نے پہلی بار ایسا ادارہ قائم کرکے اس تصور کو پاش پاش کردیا اور یہ انقلابی کارنامہ انجام دیتے ہوئے نوجوان باصلاحیت علماء کو انگریزی سے لیس کرکے ایک بڑی کھیپ تیار کردی اور پھر اس کے طرز پر بشمول دار العلوم دیوبند دیگرکئی اداروں نے نوجوان علماء کی منتخب تعداد کو انگریزی زبان سے آراستہ کرنے کا کام شروع کردیا اور الحمد للہ یہ سلسلہ مزید وسعت کے ساتھ جاری ہے.
اچھی علمی صلاحیت کے حامل نوجوان علماء کا فراغت کے بعد انگریزی کی تحصیل کے لئے پھر طالب علم بننا اور اپنے آپ کو قربانیوں کے لئے آمادہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے. عالم فاضل بننے کے بعد ایک بار پھر نئی طالب علمی کا جنون سوار کرنا اور چھوٹے بچوں کی طرح انگریزی کے ایک ایک لفظ کو رٹنا، اسپیلنگ اور تلفظ درست کرنا اور طویل عرصے تک سخت مشقت کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے. آج جو علماء فراٹے دار انگریزی بولنے اور لکھنے پر قادر ہوئے ہیں وہ علاء الدین کے چراغ کے ذریعے راتوں رات نہیں بنے ہیں بلکہ اس صلاحیت کے لئے انہیں طویل عرصے تک اپنا خونِ جگر جلانا پڑا ہے اور خود کو بہت کھپانا اور تپانا پڑا ہے.
بانی دار العلوم دیوبند حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ ہمارے مدارس کے فارغین اگر عصری اداروں میں جاکر مزید علم حاصل کریں تو یہ ان کے لئے کمال کی بات ہوگی. اس ترغیب اور خواہش کی تکمیل اور انگریزی میں دینی خدمات کی ضرورت کے پیشِ نظر علماء کا انگریزی کی تحصیل ایک بڑے کمال کی بات ہے اور انتہائی لائقِ قدر وستائش بات ہے. بالخصوص موجودہ وقت میں اس کی ضرورت جتنی بڑھ گئی ہے وہ محتاجِ بیان نہیں ہے.
انگریزی جاننے والے یہ علماء جن کو خدمتِ دین کی ضرورت کے تحت تیار کیا گیا ہے اگر ان کی بڑی تعداد کو دینی خدمت کے کام میں نہ لگایا جائے اور اس کے لئے ضروری تقاضے نہ پورے کیئے جائیں تو یہ بلا شبہہ بہت بڑا ملی خسارہ ہے. انگریزی تعلیم یافتہ نوجوان علماء کی تعداد اب ہزار کے قریب پہنچ چکی ہوگی جن میں ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو قابلِ رشک صلاحیت کی حامل ہے مگر ان کی خدمات کو مسلم تنظیموں اور بڑے مدارس نے حاصل نہیں کیا ہے. اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ ادارے ان کو اتنی کم تنخواہیں پیش کرنا چاہتے ہیں جو ان علماء کی ضروریات اور ان کے بال بچوں کی پرورش کرنے کے لئے ناکافی ہے. نتیجۃً یہ علماء مجبورا ًدیگر میدانوں کا رخ کرتے ہیں اور وہاں کسبِ معاش کے لئے اپنا خیمہ نصب کرتے ہیں حالانکہ اگر انہیں سرکاری اسکول کے کسی ادنی مدرس یا کلرک کے مساوی بھی تنخواہ پیش کی جاتی تو وہ دینی اداروں میں خدمت کو ہی ترجیح دیتے. اور ان کو ایسی تنخواہ دینا بڑی تنظیموں اور بڑے مدارس کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے کیونکہ یہ ادارے جب شاہی طرز کی تعمیرات، رنگ وروغن پر قوم کا دیا ہوا بے تحاشہ پیسہ خرچ کرتے ہیں تو ان انگریزی علماءِ دین کو دینے میں کونسی رکاوٹ ہے؟ اگر ذمہ داران اور انتظامیہ اپنے دل کو ذرا بڑا کرلیں اور بلند نگاہی سے کام لیں تو ایسے قیمتی ہیروں کو کھونے سے وہ بچ سکتے ہیں اور امت کی بڑی ضرورت پوری ہوسکتی ہے. آج نکاح, طلاق, حجاب, تعددِ ازواج، مدارس اور پورے مذہبِ اسلام پر ملک میں جس طرح تیزی سے حملے ہورہے ہیں وہ بہت تشویشناک ہے اور انگریزی میڈیا ان سے بھری پڑی ہے. ان سے متعلق خبریں اور عدالتوں کے تفصیلی فیصلے جو انگریزی زبان میں جاری اور شائع ہوتے ہیں ان کا ترجمہ، تلخیص، ریسرچ، ڈاٹا جمع کرنا، اسلام کے دفاع میں انگریزی مضامین, تبصرے اور جوابات تیار کرنا وغیرہ ایسے کام ہیں جن کے لئے انگریزی میں مہارت رکھنے والے باصلاحیت علماءِ دین کی ایک بڑی تعداد کی ضرورت ہے اور الحمد للہ ایسے افراد تیار بھی ہوچکے اور ہورہے ہیں. مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ذمہ داران عموماً یہ بات کہکر ان ہیروں کو بہت کم تنخواہ پیش کرکے کھودیتے ہیں کہ یہ "دین کا کام” ہے. ظاہر ہے کہ یہ یقیناً دین کا کام ہے مگر یہ ذمہ داران کے نزدیک بھی "دین کا کام” ہونا چاہیے جس کو وہ بھول جاتے ہیں اور جس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ دین کے کام پر خرچ کم نہ کریں بلکہ حتی الوسع زیادہ کریں. دین کے کام پر خرچ نہ کرنا یا کم کرنا جس سے کام بھی خراب ہوجائے کسی اعتبار سے درست اور اسلامی رویہ نہیں ہے.
حیرت اس بات پر بھی ہوتی ہے کہ بعض مدارس میں انگریزی پڑھانے والے ان علماء کی ناقدری کی جاتی ہے، تنخواہ عربی درجات کے اساتذہ سے کم دینا ضروری سمجھا جاتا ہے اور "ماسٹر صاحب” سے خطاب کرکے ان کو پست باور کرانے کی کوشش ہوتی ہے اگرچہ وہ دینی علوم میں بھی اعلی صلاحیت کے مالک ہوں. ظاہر ہے کہ ایسا سلوک ایسے ہیروں اور ہیرؤوں کو باہر کا راستہ دِکھانے کی طرف داعی ہوگا. نتیجۃً جب ایسے باصلاحیت نوجوان علماء کسی کمپنی وغیرہ کی ملازمت میں لگ جاتے ہیں تو ان کو مطعون کیا جاتا ہے اور رونا دھونا ہوتا ہے، اظہارِ افسوس ہوتا ہے مگر ان کو پہلے ہی مسلم تنظیموں اور مدارس میں روک کر بڑے کام لینے کی فکر نہیں کی جاتی ہے اور منصوبہ بندی نہیں کی جاتی ہے جو بہت افسوسناک امر ہے.
لہذا ضرورت اس بات کی ہے اور شدید دینی تقاضا یہ ہے کہ ملک کی بڑی مسلم تنظیمیں اور بڑے مدارس انگریزی میں ماہر نوجوان علماءِ دین کو دین کی خدمت اور دفاع کے اہم کاموں میں لگانے کی فکر کریں اور منصوبہ بنائیں، ان کی صلاحیت کو بہت غنیمت جانیں، ان کی قدر کریں، ان کو مناسب تنخواہ دیں اور ملت پر جو برا وقت آپڑا ہے اس کے ازالے کے لئے اور نئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے بلاتاخیر باصلاحیت انگریزی تعلیم یافتہ علماء کی خدمات کا تعاون حاصل کریں.
(مضمون نگار دارالعلوم دیوبند کے شعبہ انگریزی کے سابق استاذ اور فی الحال دہلی یونیورسٹی کے ڈاکٹر ذاکر حسین کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)