تعلیم گاہ میں جہالت کاداخلہ

Eastern
Eastern 11 Min Read 1 View
11 Min Read

تعلیم گاہ میں جہالت کاداخلہ

بالاسور اڈیشہ کے اس اسکول کو گرادیا جائے گا جسمیں عارضی طور پر ٹرین حادثہ کے مہلوکین کو رکھا گیا تھا۔توہم پرستی یہ خالص جاہلانہ عمل ہے،تعلیمی اداروں میں اسکی گنجائش نہیں ہے، مذکورہ واقعہ سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ اب تعلیم گاہ میں بھی اندھ وشواش کا داخلہ ہوگیا ہے۔

ہمایوں اقبال ندوی

مضمون نگارجمعیت علماء ارریہ کے نائب صدر اورتنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری کے جنرل سکریٹری ہیں۔

بالاسور اڈیشہ کے اس اسکول کو گرادیا جائے گا جسمیں عارضی طور پر ٹرین حادثہ کے مہلوکین کو رکھا گیا تھا، یہ ضلع کلکٹردتاتریہ بھاؤصاحب شندے کا کہنا ہے،دراصل یہ مطالبہ اسکول کے اساتذہ وطلبہ اور ان کے رشتہ داروں کی طرف سے مشترکہ طور پر کیا گیا تھا ،جو مان لیا گیا ہے، اس کی وجہ طلبہ اور اساتذہ میں ڈر کا ماحول ہے، خوف کے مارے وہ لوگ اسکول نہیں جانا چاہتے ہیں،حادثہ کے معا بعد عارضی طور پر اسکول کی عمارت میں مرحومین کی لاشوں کو رکھنےسے وہ سبھی ناراض ہیں اور دہشت میں مبتلا ہوگئے ہیں۔
سینکڑوں لوگ اس حادثہ میں اپنی قیمتی جانیں گنوا چکے ہیں، ان کے وارثین ہنوزصدمہ میں ہیں،مزیداسکول منہدم کرنے والی خبر سے انہیں بھی تکلیف پہونچی ہے،بلکہ یہ ان کے زخم میں نمک چھڑکنے جیسا ہے،گویا ان مرحومین کو اچھوت سمجھا جارہا ہے،جو اب اسکول کی پوری عمارت ہی گرائی جارہی ہے۔اس میں مرحومین کاکیا قصور ہے؟ آخر اس کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟ یہ ڈر کا ماحول کیوں پیدا ہوگیا ہے؟ ڈھیر سارے سوالات ہیں جو اس وقت پیدا ہوگئے ہیں، بروقت اس کا جواب دینا ضروری ہے ۔
خاص طور پر ملک کے تعلیم یافتہ لوگوں اور تعلیمی اداروں کے لئے تویہ شرم کی بھی بات ہے،اس پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے، توہم پرستی یہ خالص جاہلانہ عمل ہے،تعلیمی اداروں میں اسکی گنجائش نہیں ہے، مذکورہ واقعہ سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ اب تعلیم گاہ میں بھی اندھ وشواش کا داخلہ ہوگیا ہے۔بچوں کے ساتھ بالاسور کے اس ہائی اسکول کےگرو جی کو بھی یہ خوف ستا رہا ہے،اس کا مطلب صاف ہے، یہ فاسد خیال ذہن میں راسخ ہوگیا ہے کہ، مرنے والوں نے موت کے بعد اسکول کوہی اپنا مسکن بنالیا ہے، یہ ٹرین حادثہ مورخہ ۲/جون ۲۰۲۳ء کو پیش آیا ہے، آج دس دن ہوگئے ہیں، مرحومین کی آخری رسومات بھی ادا کردی گئی ہیں، اس وقت اسکول میں کچھ بھی نہیں ہے، پھر یہ دہشت دل میں ہے کہ مہلوکین کی آتمائیں اسی عمارت میں موجود ہیں، یہی نہیں بلکہ اسکول کی نئی عمارت بننے کے بعد بھی اسکول انتظامیہ نے روحانی پروگرام اور پوجا پاٹ کرنے کا منصوبہ بھی بنا یاہے، یہ اندھ وشواش کی بدترین مثال ہے۔

جب ایک انسان مرتا ہے توجسم سے اس کی روح نکل جاتی بے، اسی لئے اسے مردہ کہتے ہیں، یہ روح کہاں چلی جاتی ہے؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب ہے جو ہر مذہب کا ماننے والا دیتا ہے کہ جہاں سے روح آتی ہے، وہیں موت کے بعد واپس چلی جاتی ہے،یہ خدا کے حکم سے ایک جسم میں داخل ہوتی ہے،اور خدا ہی کے حکم سے باہر نکل کر اس کے پاس چلی جاتی ہے،کسی کے انتقال کی خبر جب ایک مسلمان سنتا ہے تو پہلی فرصت میں یہی کہتا ہے کہ؛ہم سب خدا کے ہیں، اور اسی کی طرف لوٹ کر جائیں گے،( سورہ بقرہ)
قرآن میں دوسری جگہ یہ واضح طور پرلکھا ہوا ہے کہ؛وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو اس سے ملنا ہی ہے، پھر تم اس خدا کے پاس لوٹ جاؤگے جو حاضر وغائب کا جاننے والا ہے،وہ تم کو تمہارے کرتوت بتائے گا،(سورہ الجمعہ)
ماحصل یہ کہ مرنے کے بعد انسانی روح خدا کے پاس چلی جاتی ہے، ایک نیک انسان کی روح علیین میں ہوتی ہے، اس کے برعکس بدروح کی جگہ سجین ہے،ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دریافت کیا کہ؛علیین اور سجین کیا ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛علیین آسمان کی بلندی پر ایک پرفضا مقام ہے،جہاں نیک ارواح رہتی ہیں، یہ آپس میں ایک دوسرے سے مانوس بھی ہوتی ہیں،اور محبت کا اظہار بھی کرتی ہیں، اور سجین زمین کی سب سے نچلی سطح میں ایک خوفناک قید خانہ ہے،یہاں برے لوگوں کی ارواح قید کی جاتی ہیں، یہ آپس میں ایک دوسرے کو لعن وطعن کرتی رہتی ہیں،
(تفسیر ابن کثیر )
ہندو دھرم کے مطابق بھی جو لوگ مرچکے ہیں، ان کی روحیں جہاں سے آئی تھیں، وہاں پہونچ چکی ہیں،لاشوں کو نذر آتش کرنے کے پیچھے دراصل یہی فلسفہ کار فرماہے،وہ کہتے ہیں کہ انسان کی اصل پانچ چیزیں ہیں، مٹی، پانی، آگ، ہوا اور آکاش، مرنے کے بعد جلانے سے ایک انسان جب آگ کے حوالہ ہوتا ہے تو وہ اپنی اصل کی طرف چلاجاتا ہے،دھواں کے ذریعہ ہوا اور آکاش میں، راکھ کا کچھ حصہ مٹی میں مل جاتا ہے، پھر بعد میں جلی ہوئی ہڈیوں کو پانی میں بہادیا جاتا ہے، اس طرح وہ اپنی اصلیت کی طرف لوٹ جاتا ہے،اس سے مرنے والے کو مکتی پراپت ہوجاتی ہے،اور اس کی آتما کو شانتی مل جاتی ہے، اس کے بعد اس کی آتما کہیں بھٹکتی نہیں ہے۔لیکن یہ سب کے باوجود ڈر اور خوف کا ماحول یہ کہتا ہے کہ اب تعلیمی ادارے بھی ملک میں محفوظ نہیں ہے، اس کی وجہ پڑھے لکھے لوگ بھی جادو، ٹونا اور ٹوٹکے کے قائل ہوگئے ہیں، دراصل حالیہ چند سالوں سے ایسی فضا ملک میں بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، اور اس میں بہت حد کامیابی بھی ملی ہے، کچھ سادھو سنتوں کو اس مشن پر لگایا گیا ہے جو چھوت، بھوت، پلیت اور توہم پرستی کا بازار مسلسل گرم کررہے ہیں،
آج ایک بابا تختی پر لکیر کھینچ کرجو کچھ کہ دیتا ہے اس پر آنکھ بند کرکے لوگ یقین کرلیتے ہیں، پڑھے لکھے لوگ بھی اس کے فالوور ہیں، حدیث شریف میں اسے شیطانی کام قرار دیا گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، خط کھینچ کر حال بتانا شیطانی کام ہے،(ابوداؤد)
درحقیقت یہ باتیں ایک انسان کی ترقی اور پھر ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے، آج بالاسور کے ہائی اسکول میں پڑھنے والے ۶۵۰/طلبہ اسی توہم پرستی کی بناپر تعلیم سے دور ہوئے ہیں، اسکول جانے سے خوف محسوس کرتے ہیں، اس خوف کو یقین میں بدلنے کا کام ان کے اساتذہ اور رشتہ داروں نے کیا ہے، یہ توہم پرستی کی بدترین مثال ہے، اور جہالت کی بات ہے، اس سے تعلیمی اداروں کو ان چیزوں سے پاک وصاف کرنے کی ضرورت ہے۔
آج سےساڑھے چودہ سوسال پہلے کی بات ہے، مکہ کے لوگ یہی عقیدہ رکھتے تھے کہ مرنے والے کی روح بھٹکتی رہتی ہے، کبھی کسی شکل میں تو کبھی پرندے کی شکل میں گھومتی رہتی ہے، اسے وہ لوگ ہامہ کہتے تھے،اس کے علاوہ اور بہت سے اوہام وخرافات کے وہ قائل تھے، سانپ کو اہل عرب بھی نہیں مارتے، ان کا یہ عقیدہ تھا کہ سانپ کو مارا جائے تواس کا جوڑا آکر بدلہ لیتا ہے، جو کام کرنا چاہتے پہلے شگون لے لیتے تھے، مثلا کوئی پرندہ داہنی جانب سے اڑا تو مبارک، بائیں جانب اڑا تو باز رہتے تھے، اس قسم کے سینکڑوں اوہام پھیلے تھے، (سیرت النبی جلد چہارم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبی بناکر پہلے انہیں کے درمیان بھیجے گئے، آپ صلی علیہ وسلم نے انہیں خدا کی طاقت کا قائل کردیا، اور جن چیزوں کو وہ طاقتور سمجھتے تھے، ان کی یہ حیثیت بتلائی کہ ؛نہ چھوا چھوت کی کوئی اصل ہے،نہ بدفالی کی کوئی حیثیت ہے،نہ پیٹ میں بھوک کا سانپ رہتا ہے،نہ مرنے والے کی کھوپڑی سے کوئی پرندہ نکلتا ہے، (ابوداؤد)
اسلام کی اس سچی تعلیم سے اندھ وشواش کا طلسم ٹوٹا ہے،خدا کا شکر ہے کہ اس وقت مکہ سے اس کا خاتمہ ہوچکا ہے، موجودہ وقت میں ملک کے مسلمانوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے،ان اوہام کے خاتمے کے لئے اپنی قربانی پیش کریں، ابھی دو سال پہلے کورونا وائرس کی وبا میں مسلمانوں نے ان لاشوں کی بھی آخری رسومات ادا کی ہے جنکو لیجانے سے ان کے وارثین نے انکار کر دیا تھا، اس سے زبردست پیغام گیا تھا، اور آج بالاسور اڈیشہ کے اسکول اور ان جیسے تعلیمی اداروں میں پھیلی توہم پرستی کے خاتمے کے لئے کیا ہم کیا کچھ کرسکتے ہیں؟ اس پر سنجیدگی سے غور کرنےاور مضبوط لائحہ عمل لینےکی ضرورت ہے۔

مضمون میں مذکورآراء مصنف کے ہیں، ایسٹرن کریسنٹ کا ان سے اتفاق ضروری نہیں ہے۔

Share This Article
Leave a comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Trending News

اے شہر آرزو تجھے کہتے ہیں الوداع

اے شہر آرزو تجھے کہتے ہیں الوداع (دو روزہ MOM (مرکز آن

Eastern Eastern

نئے حالات میں مرکز المعارف کا ایک اور انقلابی اقدام

نئے حالات میں مرکز المعارف کا ایک اور انقلابی اقدام محمد عبید

Eastern Eastern

مدارس میں بنیادی تعلیم کی بہتری ممکن، مگر خودمختاری میں مداخلت نہیں: سپریم کورٹ

مدارس میں بنیادی تعلیم کی بہتری ممکن، مگر خودمختاری میں مداخلت نہیں:

Eastern Eastern

مہاوکاس اگھاڑی یا مہایوتی؟ مہاراشٹر میں کون لے جائے گا بازی

مہاوکاس اگھاڑی یا مہایوتی؟ مہاراشٹر میں کون لے جائے گا بازی محمد

Eastern Eastern

حضرت سلمان فارسی دین فطرت کی تلاش میں

حضرت سلمان فارسی دین فطرت کی تلاش میں محمد توقیر رحمانی اسلام

Eastern Eastern

حق و باطل کی  معرکہ آرائی  روز اول  سے ہے

حق و باطل کی  معرکہ آرائی  روز اول  سے ہے محمد توقیر

Eastern Eastern

Quick LInks

عصری اداروں میں مدرسے کے طلبہ کی مایوسی: ایک حقیقت پر مبنی جائزہ

عصری اداروں میں مدرسے کے طلبہ کی مایوسی: ایک حقیقت پر مبنی

Eastern Eastern

ٹرمپ کی جیت اور فلسطین کے حوالے سے کچھ خدشات

ٹرمپ کی جیت اور فلسطین کے حوالے سے کچھ خدشات خورشید عالم

Eastern Eastern

_جی نہ چاہے تھا أسے چھوڑ کے آنے کو! _

_جی نہ چاہے تھا أسے چھوڑ کے آنے کو! _ از :

Eastern Eastern