طوفانوں سے لڑنے میں مزا اور ہی کچھ ہے
ای سی نیوز ڈیسک13 مئی 2024
طہ جون پور
جب دن کے تقریباً ساڑھے چار بج رہے ہوں، مئی کا مہینہ ہو، اوپر سے سورج کی سوزش، نیچے سے زمین کی تپش، اپنا پورا اثر دکھا رہی ہو، گویا گرمی اپنے چَرَم پر ہو ، ایسے میں کون یہ امید کرسکتا ہے کہ آگے خوفناک اندھیروں کی کا ایک طوفان آرہا ہے.
کرلا، ویسٹ میں، اپنی پھوپھی سے ملاقات کرکے جوں ہی لال بہادر شاستری روڈ پر آیا، تو آسمان میں دیکھا کہ کچھ موسم برسات جیسا ہے، لیکن تقریباً دو سو میٹر اور آگے برج کے پاس بڑھا، تو دیکھا کہ یہاں طوفانی ہوا اورگردو و غبار کا منظر ہے. چناں چہ لمحوں میں یہ طوفان آنکھ میں، اپنے اثرات دکھانے لگا اور گردو غبار میں ہر ایک کو لے لیا. بچے دل کے سچے تو، اس موقع پر، روڈ کے کنارے لطف اندوز ہورہے تھے، تو نوجوان منچلے، اس خوفناک منظر کو دجالی آنکھ میں کیمرے میں قید کرکے، اس منظر کو حیات جاودانی بخشنے کی کوشش میں لگے تھے.
مجھے یہاں سے اب بھی تقریباً 15 کیلو میٹر دور جانا تھا، جو کہ کچھ خاص نہیں تھا، لیکن آج تو کرکٹ کی اصطلاح میں اگر کہا جائے، تو بہت ہی احتیاط و صبر سے، لمبی پاری کھیلنی تھی. چناں چہ بائک کی رفتار کو یہیں سے سلو کردیا، اور دھیرے دھیرے آگے بڑھنے لگے. درمیان میں کئی ایک جگہ، گاؤں کے بھونڈر کا سابقہ پڑا، تیز رفتار ہوا، گولائی میں ناچتے ہوئے ٹکراتی، لیکن آہستہ آہستہ بڑھتا رہا.
لغزش نہیں آئے گی میرے عزم سفر میں،
پیروں پہ نہیں، اپنے ارادوں پہ کھڑا ہوں
سائن اسٹیشن کے پاس پہونچا، تو برادرم (مفتی) نفیس جون پوری کو فون کیا، اور کہا کہ دعا کریں، انھوں نے فورا کہا کہ: اللهم لا تقتلنا بغضبك و لا تهلكنا بعذابك. میں نے، اس پر آمین کہا اور پھر کہاکہ حسن اتفاق سائن اسٹیشن کے پاس پہونچا ہوں، کہنے لگے، موسم خراب ہے. یہیں رک جائیں، میں نے کہا، گاڑیاں چل رہی ہیں اور میں بھی اسی کا حصہ ہوں. آگے بڑھ کر جب ممبئی شہر کی طرف رخ کیا، تو بارش کی بوندا باندی شروع ہوچکی تھی، اور بڑھ ہی رہی تھی. موسم دیکھ یہ یقین ہوگیا تھا، کہ
اب کے بارش میں تو یہ کار زیاں ہونا ہی تھا
اپنی کچی بستیوں کو بے نشاں ہونا ہی تھا.
سب کچھ بھیگ جاتا، اس لیے کچھ کو بچانے کی فکر کی. برادرم مولانا رضوان اعظمی کا لیپ ٹاپ ایک بیماری کا شکار ہے، جو اس وقت ساتھ تھا. اس لیپ ٹاپ پر جراح کی جراحی سے قبل، مزید بیماریوں کے خطرات منڈلانے لگے، کہ کہیں بارش کے دوچار قطرات، اپنا اثر نا دکھادیں. اس لیے سب سے پہلے، اس کو ایک پولی تھین میں رکھا. موبائل اور دیگر موم کی طرح نرم آلات کو، بائک کی ڈگی میں، ڈال دیا اور پھر نکل پڑا.
طوفانوں سے آنکھ ملاؤ، سیلابوں پر وار کرو،
ملاحوں کا چکر چھوڑو، تیر کے دریا پار کرو
بائک پر سوار ہوتے ہی سب سے پہلے، گاڑی کو بالکل سلو چلانے لگا، کیوں کہ چھوٹے پہیہ، کی گاڑی کے پھسلنے کا خطرہ زیادہ رہتا ہے، اس لیے بس چیونٹی کی رفتار چلنے لگا، لیکن یہ بات ذہن میں تھی، کہ اس موقع پر لوگ خوب پھسلتے ہیں، کیوں کہ عام رفتار چلاتے ہیں اور نتیجہ، منہ کے بَل زمین پر آجاتے ہیں. اس طرح چلتا رہا، چند کیلو میٹر سفر ہوا، گاڑیاں چلتی رہیں، ویسے بھی ممبئی میں کب گاڑیاں رکتی ہیں، اچانک نظر پڑی کہ ایک صاحب، تقریباً پچاس میٹر کی دوری پر، بائک سے گر کر زمین پر گھسٹ رہے ہیں. میں قریب گیا. اپنی بائک کنارے لگایا اور سپورٹ کیا. پیچھے سے آنے والی گاڑیوں کو، اشارہ کیا، کہ مزید کنارے ہوکر چلیں.
یہ سب چل ہی رہا تھا، کہ پیچھے بہ مشکل تیس میٹر کی دوری پر، ایک چچا، بائک سے گرگئے. ان کے قریب پہنچا، ان کی گاڑی اٹھوائی اور کہا: کہ سست رفتار چلائیں. کہنے لگے، میری تو سست ہی تھی، میں نے کہا: اور آہستہ آہستہ چلائیں.
خیر یہاں سے آگے بڑھا، بائیکہ بِرِج سے تھوڑا پہلے دیکھا کہ جانب مخالف میں لمبی ٹریفک ہے. سمجھ میں آگیا کہ کچھ ہوا ہے. تھوڑا اور آگے بڑھا، دیکھا، کہ یہاں دو لوگ الٹے پڑے تھے، لوگ ان کا سامان اٹھارہ تھے. میں آگے نکل گیا اور چند منٹ بعد اپنی منزل پہ آگیا.
ساحل کے سکوں سے کسے انکار ہے لیکن
طوفان سے لڑنے میں مزا اور ہی کچھ ہے.