غلط وڈیو ایڈیٹنگ کے ذریعے اسلام کی تشہیر نہ کریں!
مدثر احمد قاسمی
مضمون نگار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر، روزنامہ انقلاب کے ڈیلی کالم نگار،ایم ایم ای آر سی ممبئی کے ڈیل کورس کے نیشنل کو آرڈینیٹر اور الغزالی انٹر نیشنل اسکول، ارریہ کے ڈائریکٹر ہیں۔
ڈیجیٹل ایجادات کے اس زمانے میں مثبت تبدیلیوں کو قبول کرکے آگے بڑھنے ہی میں خیر ہے۔اسلام اپنی بے پناہ وسعتوں کے دامن میں ہمارے لیئے یہ واضح پیغام رکھتا ہے کہ ہم محض مثبت تبدیلیوں کو قبول ہی نہ کریں بلکہ دنیا کے سامنے مثبت تبدیلیوں کو پیش بھی کریں۔اللہ رب العزت نے صاف واضح لفظوں میں قرآن مجید میں ارشاد فرما دیا ہے:..”اور ایسی چیزیں بھی پیدا کریں گے جن سے تم ابھی واقف نہیں ہو.”(النحل:08) یہ آیت کریمہ قرآن کے ماننے والوں کے لیئے اپنے آپ میں ایک واضح ہدایت ہے کہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے اللہ رب العزت کے ایجاداتی نظام کا حصہ بنیں۔
اس تمہید کے آئینے میں دور جدید کے ڈیجیٹل دنیا کی ایک اہم ایجاد وڈیو ایڈیٹنگ کے تعلق سے ایک اہم پہلو کی طرف آپ کی توجہ مرکوز کرانا چاہ رہے ہیں۔ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ ایک عام وڈیو کو ایڈیٹنگ کے ذریعہ جاذب نظر بنایا جاتا ہے۔ اس عمل کے ذریعے وڈیو کے ناظرین کی تعداد کافی بڑھ جاتی ہے۔ جہاں تک سچائی کے دامن کو تھامے جائز حدود میں رہتے ہوئے یہ ایک مستحسن عمل ہے اور تبلیغ کی حکمت کا حصہ ہے وہیں غلط اور ناجائز طریقے سے اس عمل کو انجام دینا ملمع سازی اور قابل گرفت عمل ہے۔اس بے تر تیبی کی ایک بد ترین مثال یہ ہے کہ آج کل بکثرت یہ دیکھنے میں آرہا ہے ہےکہ قرآن کریم کی قرات، مظاہرہ اذان اور نعت وغیرہ کی وڈیو کو انڈین آئڈل جیسے پروگراموں کے وڈیو کے ساتھ مرج کردیا جاتا ہے اور یہ منظر دیکھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ قرآت، اذان اور نعت وغیرہ سن کر انڈین آئڈل کے سلیبریٹیز آنکھوں سے آنسو بہا رہے ہیں، حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔
غور کیا جائے تو ایڈیٹنگ کا یہ عمل اسلام کے ساتھ ایک بھدا مذاق ہے۔ قرآت و نعت ایسی چیزیں نہیں ہیں جن کو اپنی افادیت یا اثر انگیزی ثابت کرنے کے لیئے اس طرح کی ایڈیٹنگ کی ضرورت ہو۔ قرآن کی سحر انگیزی نے تو روز اول سے ہی بلا واسطہ یا بلواسطہ سننے والوں کو اپنا اسیر بنایا ہے اس کی مثالوں سے تاریخ اسلامی کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔
امیرالمؤمنین حضرت عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’جب میں نے قرآن سنا تو مجھ پررقت طاری ہوگئی، میں رونے لگ گیا اورمیں نے اسلام قبول کرلیا۔‘‘ایک روایت میں یوں ہے کہ میں نے کہا:’’یہ کلام کس قدر اعلیٰ و ارفع ہے۔‘‘ ولید بن مغیرہ قرآن مجید کا منکر اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جانی دشمن تھا مگر اس کے باوجود وہ یہ بات کہنے پر مجبور ہوا: ’’بخدا قرآن میں شیرینی پائی جاتی ہے۔یہ تروتازہ کلام ہے۔ یہ ہرچیز کومغلوب کرلیتا ہے۔ یہ سب سے ارفع و اعلیٰ ہے اور کوئی چیز بھی اس سے بلندتر نہیں۔ قرآن میں جادو کا اثر پایا جاتاہے۔ تم دیکھتے نہیں ہو کہ یہ ایک آدمی کو اس کے احباب و اعزہ سے جدا کردیتا ہے۔‘‘ (قرآن مجید کے فنی محاسن)
اس تفصیل کے بعد یہ وضاحت ضروری ہے کہ جو بھی مذکورہ طرز پر ایڈیٹنگ کرتے ہیں،بہت ممکن ہے کہ ان کی نیت اچھی ہو لیکن حقیقتا یہ نادان کی دوستی سے کم نہیں ہے جس کا فائدہ تو نہیں نقصان ضرور ہے۔ اس کے علاؤہ از روئے شریعت یہ ایک زبردست اور بڑی غلطی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس شخص نے مجھ پر ایسی بات کہی جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانا (جہنم کی) آگ میں بنا لے۔”( بخاری) اس حدیث کا پیغام یہ ہے کہ دین میں ملمع سازی کی بالکل بھی گنجائش نہیں ہے اور ایسا کرنے والا از روئے شریعت مجرم اور گنہگار ہے۔
اب ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ دین کے کاموں میں لیپا پوتی نہیں ہے۔ اس لیئے اس قبیل کے جتنے کام ہیں ہمیں اس سے ضرور بچنا چاہیئے اور دین پر ہمیں بلا افراط و تفریط عمل پیرا ہونا چاہیئے اور بلا کم و کاست اس پیش کرنا چاہیئے تاکہ دنیا ہمیں اسلام کے آئینے کے طور پر دیکھے اور اس آئینے میں وہ اپنے سراپا کو سنوار لے۔