از: مفتی محمد اللہ قیصرقاسمی
عظیم شخصیات کے کارناموں کی تفصیلات کے انیک فائدے ہیں، اولا ان کی تعلیمات و ارشادات کو اصلی شکل میں محفوظ رکھنا ممکن ہوتا ہے، اور مستقبل میں کتر بیونت اور حشو اضافہ کی آلائشوں سے پاک ہو جاتی ہیں، دوسرے ان رجال کار کی قربانیوں اور جانفشانیوں کے واقعات سے واقفیت ہوتی ہے تو نسل نو کو جہان نو کی تلاش کا امنگ پیدا ہوتا ہے، نئی نسل کو حوصلہ ملتا ہے کہ حالات چاہے جتنے مخدوش ہوں، ’’تندی باد مخالف سے گھبرانا‘‘ ’’عقاب‘‘ کو زیب نہیں دیتا، حوصلہ ہو تو سمندر کی طوفانی لہروں کو لطف اندوزی کا سامان بنایا جا سکتا ہے، قلت وسائل کا شکوہ، اور اسباب کی عدم موجودگی سے مایوسی اس قوم کو زیب نہیں دیتی جس پر رب کریم نے "لا تقطنوا من رحمة الله” کہہ کر قنوطیت حرام کردی ہے۔
اور اہم ترین فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کام کا جذبہ رکھنے والے لوگ اسلاف و اکابر کی زندگی سے روشنی حاصل کرتے ہیں کہ انہوں نے درپیش چلینجز کا سامنا کس طرح کیا، اس کے لیے کیا راہ عمل اختیار کیا، جن خطوط پر چل کر انہوں نے قوم وملت کو ایمان سوز تحریکوں کی تپش سے محفوظ رکھا آج ان سے ہمیں کس قدر رہنمائی مل سکتی ہے۔
اور اہم ترین فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کام کا جذبہ رکھنے والے لوگ اسلاف و اکابر کی زندگی سے روشنی حاصل کرتے ہیں کہ انہوں نے درپیش چلینجز کا سامنا کس طرح کیا، اس کے لیے کیا راہ عمل اختیار کیا، جن خطوط پر چل کر انہوں نے قوم وملت کو ایمان سوز تحریکوں کی تپش سے محفوظ رکھا آج ان سے ہمیں کس قدر رہنمائی مل سکتی ہے۔

مرکزی اداروں میں خدمات انجام دینے والے اوپر کی سطح کے مشاہیر علماء کی سوانح ان کے حالات اور ان کی خدمات کی تفصیلات جمع کی جاتی ہیں، دنیا ان سے واقف ہوتی ہے، لیکن زمینی سطح پر جنہوں نے کام کیا، چھپڑوں کے نیچے، کسی مکتب میں بیٹھ کر ملت کا مستقبل تیار کیا، علوم دینیہ کی اشاعت کرکے بدعات و خرافات پر کاری ضرب لگائی، چھوٹے بچوں میں ابتدائی تعلیم دیکر اعلی تعلیم کے لیے تیار کیا، گویا مرکزی اداروں کو ’’خام مال فراہم کیا‘‘ اسی طرح مسجدوں کے ممبروں سے دینی بیداری پیدا کی، لوگوں کے دلوں میں ایمان و یقین کی جوت جگائی،لوگوں کو احساس دلایا کہ آپ کی ایک نسل دینی تعلیمات سے محروم ہوگی تو آئندہ نسلیں دین سے محروم ہو سکتی ہیں، انہیں بتایا کہ امت مسلمہ کی بنیاد ایمان پر ٹکی ہے، ایمان متزلزل ہوگا تو امت کی پوری دیوار ہی بیٹھ جائے گی، ملت کے اس ’’پیادہ دستے‘‘سے بہت کم لوگ واقف ہوتے ہیں، بدقسمتی سے دیہی علاقوں میں کام کرنے والے دین کے ان بے لوث خدام کے حالات جمع نہیں کئے گئے، جبکہ انہوں نے جن حالات میں کام کیا، اور قلت وسائل کے باوجود، بے سرو سامانی کے عالم میں دیہی علاقوں میں رہنے والوں کے دین و ایمان کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا وہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔
عموماً یہی ہوتا ہے کہ مشاہیر کے احوال جمع کئے جاتے ہیں، ان کی زندگی کی تفصیلات لکھ کر محفوظ کی جاتی ہیں لیکن زمینی سطح پر کام کرنے والوں کو فراموش کر دیا جاتا ہے، انہیں ایک دو نسلوں کے بعد فراموش کر دیا جاتا ہے، حتی کہ لوگ ان کے نام تک بھلا دیتے ہیں، جبکہ ان کی زندگی بھی قربانیوں سے عبارت ہوتی ہے، ان کی خدمات کی تفصیلات سے بھی نسل نو کو یہ رہنمائی ملتی ہے کہ آج کے ماحول میں کام کی نوعیت کیا ہو سکتی ہے، کس طرح جہالت اور بدعات و خرافات کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے، اسی فکر کے تحت بصیرت آنلائن کے پلیٹ فارم سے 2021 میں سیمینار کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا، جس میں اب تک 22 علماء کرام کے احوال جمع کئے جا چکے ہیں۔
یہ سیمینار اس ناحیہ سے الگ نوعیت کا ہے کہ اس میں خالص علمی طبقہ کے علاوہ عام لوگوں کو بھی شرکت کی دعوت دی جاتی ہے، تاکہ وہ بھی جان سکیں کہ ہمارے ان اکابرین نے مقامی طور پر دین و ایمان کی حفاظت کے لیے کتنی بڑی قربانیاں پیش کی ہیں، بے سرو سامانی کے عالم میں انہوں نے کیسے کیسے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔
رواں سال 5 نومبر کو، مولانا غفران ساجد قاسمی صاحب چیف ایڈیٹر بصیرت آن لائن کی نگرانی اور حضرت مولانامحمد قیصر صاحب قاسمی ، ناظم مدرسہ بشارت العلوم ، حضرت مولانا صدرعالم صاحب قاسمی ، صدر جمعیۃ علماء گوونڈی ، اور حضرت مولانا رضوان صاحب قاسمی کی سرپرستی میں تذکرہ علمائے مدھوبنی کا تیسرا سیمینار مدھوبنی کی مشہور بستی پرسونی میں منعقد ہوا، جس میں ملک کے مشاہیر علماء کرام نے شرکت کی، جبکہ بطور مہمان خصوصی حضرت مولانامحمد سفیان صاحب قاسمی ، مہتمم دارالعلوم دیوبند وقف شریک ہوئے،دیگرمعززمہمانان میں مولانا شمشاد رحمانی نائب امیر شریعت بہار و اڑیسہ جھارکھنڈ ، مولانا شبلی صاحب قاسمی، ناظم امارت شرعیہ، مولانا شکیل صاحب قاسمی پروفیسر اورینٹل کالج پٹنہ، مولانا عمر عابدین صاحب قاسمی مدنی،نائب ناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد،قاری حفظ الرحمن صاحب مہتمم مدرسہ قاسمیہ بالاساتھ ،مولانا فضیل احمد ناصری استاذ معہد انور دیوبند اور مفتی ابوبکر قاسمی، استاذ مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ جیسی مقتدر شخصیات نے شرکت فرماکر اس سیمینار کو رونق بخشی، جبکہ فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم ، صدرآل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنا خصوصی پیغام ارسال کرکے اپنی نیک خواہشات کا اظہار فرمایا۔
یہ پروگرام اس حیثیت سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل رہا کہ مہمان ذی وقار حضرت مولانا محمدسفیان صاحب قاسمی کے لیے بصیرت آن لائن کی طرف سے مولانا غفران ساجد قاسمی نے ’’امین ملت‘‘ کے لقب کی تجویز پیش کی گئی، جس پر تمام ذمہ داران مدارس بشمول مولانا قیصر صاحب ،ناظم مدرسہ بشارت العلوم، مولانا حسنین صاحب قاسمی بانی و مہتمم جامعہ عائشہ نورچک، نائب امیر شریعت مولانا شمشاد رحمانی ،ناظم امارت شرعیہ مولانا شبلی صاحب ، مولانا شکیل صاحب قاسمی پروفیسر اورینٹل کالج اور دیگر تمام مؤقر علماء کرام نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بیک زبان اس تجویز کی تائید کی۔

محمد اللہ قیصر قاسمی اور مولانا مظفر رحمانی نے نظامت کے فرائض انجام دئیے، ناظم سیمینارمفتی محمد اللہ قیصرقاسمی نے پروگرام کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ آج سے سو سال قبل کے حالات پر نظر ڈالئے، ایک طرف عالمی سطح پر امت کے خلاف سازشیں ہورہی تھیں، مسلم ممالک کی بندر بانٹ کرکے امت کی وحدت کو پاش پاش کیا جارہا تھا، اور مقامی طور پر مسلمانوں کی رہی سہی سیاسی اور سماجی قوت کو کچلنے کے ساتھ، ان کے دین و ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کی تیاری شباب پر تھی، دوسری طرف داخلی طور پر مسلمانوں میں دین و اخلاق ، تہذیب و تمدن ،دینی تشخص کا شعور ملی احساس، اور اجتماعی مفاد کا تصور مفقود ہو چکاتھا، ایسے میں اللہ کے یہ برگزیدہ بندے قلت وسائل اور بے سروسامانی کا رونا روئے بغیر اٹھے اور دین متین کے مضبوط قلعے تیار کئے، آج ہمارے پاس جو کچھ ایمان کی دولت محفوظ ہے وہ ان نفوس قدسیہ کی کاوشوں کی رہین منت ہے، اور ہم بلاشبہہ ان کے قرضدار ہیں، نسل نو کو ان سے واقف کرانا ہمارا اخلاقی فریضہ ہے۔
اس تیسرے سیمینار میں 7 اکابر علماء کی سیرت و سوانح پر مختلف مقالہ نگاروں نے اپنے قیمتی مقالے پیش کئے ، جو مجلہ کی شکل میں شائع ہوکر منظر عام پر آچکے ہیں، مجلہ میں مندرجہ ذیل اکابر علماء کرام رحمہم اللہ کے تذکرے شامل ہیں:
۱۔حضرت مولاناعبدالحفیظ رحمۃ اللہ علیہ چندرسین پوری، بانی مدرسہ بشارت العلوم کھرایاں پتھرادربھنگہ۔۔۔ محمداللہ قیصرقاسمی
۲۔حضرت مولاناجمال احمدخستہ مکیاوی رحمۃ اللہ علیہ سابق صدرالمدرسین جامعہ اشرف العلوم کنہواں۔۔مولانامحمدشاہدقاسمی؍
۳۔حضرت مولاناعبدالباقی ململی رحمۃ اللہ علیہ سابق شیخ الحدیث جامعہ فاطمۃ الزھراء ململ مدھوبنی۔۔۔۔مولاناحسان اخترندوی؍شکیل الرحمن ندوی؍نجم الہدیٰ ثانی
۴۔حضرت مولانامحب الحق رحمۃ اللہ علیہ پروہی،سابق استاذجامع مسجدامروہہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مفتی امدادالحق بختیارقاسمی؍مولانانورالحسن راشدکاندھلوی؍سالم جامعی
۵۔حضرت مولانانسیم احمدقاسمی کٹھیلارحمۃ اللہ علیہ سابق قاضی شریعت مدرسہ محمودالعلوم دملہ۔۔۔۔۔۔۔ محمداللہ قیصرقاسمی؍عامرظفرقاسمی
۶۔حضرت مولاناامیرالحق مفتاحی اجراوی رحمۃ اللہ علیہ سابق استاذمدرسہ نورالاسلام چھتون۔۔۔۔۔۔مولانانسیم نظرقاسمی؍ڈاکٹرابراراحمداجراوی؍
۷۔حضرت مولانامحمدصابرقاسمی بھوارہ رحمۃ اللہ علیہ سابق امام وخطیب جامع مسجدباٹاچوک مدھوبنی۔۔۔مفتی محمدامداداللہ قاسمی؍مفتی مسیح احمدقاسمی؍مولانااظہارقاسمی
مہمان خصوصی حضرت مولانامحمد سفیان صاحب قاسمی اور دیگر علماء کے ہاتھوں اس مجلہ کے اجراء کی کاروائی عمل میں آئی۔
پھر تمام مقالہ نگاروں نے اپنے مقالوں کی تلخیص پیش کی، مقالوں کی تلخیص کے بعد علماء کرام اور دیگر مہمانان عظام نے اپنے تاثرات پیش کئے۔
جناب ڈاکٹر فیاض احمد ممبر راجیہ سبھا، نے کہا کہ یہ بہت ہی مفید اور علمی نوعیت کا کام ہے میں ذاتی طور پر اس کام سے بہت متاثر ہوں، انہوں نے تلقین کرتے ہوئے کہا کہ یہ سلسلہ رکنے نہ پائے،اور انہوں نے یقین دلایا کہ میں اس اہم کام میں ہر قدم پر آپ کے ساتھ ہوں۔
مولانا شبلی صاحب قاسمی ناظم امارت شرعیہ نے اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ سلسلہ بہت ہی مبارک ہے، امید ہے کہ یہ جاری رہے گا، اللہ تعالیٰ اس سلسلے کو جاری رکھنے والوں کے قدموں میں استقامت عطاء فرمائے۔
نائب امیر شریعت مولانا شمشاد رحمانی صاحب قاسمی نے کہا کہ جو قوم اپنے اکابر کے نقش قدم سے ہٹ جاتی ہے اس کے نقوش مٹ جاتے ہیں، اسلاف کی تاریخ ذہن سے مٹتی ہے تو قوم مایوسی کے دلدل میں پھنس جاتی ہے، میں مبارک باد دیتا ہوں مولانا غفران ساجد صاحب اور بصیرت ٹیم کو کہ انہوں نے اکابر کی تاریخ کی یاد دہانی کا سلسلہ شروع کیا جو قابل تحسین ہی نہیں بلکہ لائق تقلید ہے۔
مولانا شکیل صاحب قاسمی نے فرمایا کہ مولانا غفران ساجد صاحب قاسمی نے جو سلسلہ شروع کیا اس سے جہاں پرانی شخصیتوں کا انکشاف ہوا وہیں نئے لکھنے والوں کی دریافت ہوئی، ہمیں ان کی قدر کرنی چاہئیے، ایسا نہ ہو کہ دنیا تو آج اپنے پتھروں کو ہیرا بنا رہی ہے اور ہم اپنے ہیروں کی ناقدری کریں۔
مشہور عالم دین مولانا فضیل احمد ناصری نائب ناظم تعلیمات واستاذحدیث جامعہ امام انور دیوبند نے کہا کہ بہار کی سرزمین علم و ادب کے حوالے سے بڑی زرخیز ثابت ہوئی ہے لیکن چند ایک مشاہیرکے علاوہ وہ لوگ جن کی بڑی زمینی خدمات ہیں، اور ان کی وجہ سے بہار میں علم و ادب کا بہار ہے، ان پر ایک حرف نہیں لکھا گیا، جنہیں ہم نے فراموش کردیا تھا ان کی یادوں کو زندہ کرنے کے لیے مولانا غفران ساجدقاسمی صاحب اور پوری بصیرت ٹیم شکریہ کی مستحق ہے۔
علمی حلقہ میں اپنی علمی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے، نوجوان فاضل اور معروف اسلامی اسکالر مفتی عمر عابدین قاسمی مدنی نے سرزمین بہار کی علمی، ادبی، اور روحانی شخصیات اور ان کے ذریعہ برپا کردہ علمی تحریکات کی تاریخ پر تفصیلی روشنی ڈالنے کے بعد کہا کہ اس سرزمین میں اللہ تعالیٰ نے بڑی طاقت اور توانائی بخشی ہےاور اعتراف خدمات کے حوالہ سے جو یہ پروگرام رکھا گیا ہے، وہ بہت اہم ہے، ایک طرف ہمارے سامنے ماضی کی تاریخ ہو تو دوسری طرف مستقبل کی خاکہ سازی بھی ہمارے پیش نظر رہے،اپنی تاریخ کو یاد رکھئے لیکن مستقبل کی تعمیر کو فراموش نہ کیجئے، اس حوالہ سے اہل مدارس سے اپیل کی کہ اپنے یہاں تعلیمی کوالیٹی میں بہتری کی خوب کوشش کریں ،انہوں نے اس کامیاب سیمینارکے انعقادپرمولاناغفران ساجدقاسمی اوربصیرت ٹیم کومبارکبادپیش کی۔
سیمینار کے سرپرست اور صدر مجلس حضرت مولانا قیصر صاحب قاسمی نے مولانا غفران ساجد صاحب قاسمی اور بصیرت ٹیم کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے جن محسنین کو تقریبا فراموش کرچکے تھے ان کی یادیں ذہنوں میں تازہ کرنے کے لیے پوری بصیرت ٹیم کا شکریہ ادا کرتا ہوں،اس سیمینار میں اصحاب علم و فضل کی کثیر تعداد اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ حضرات نے جو مبارک سلسلہ شروع کیا ہے وہ ہم سب کی دیرینہ آرزو کی تکمیل ہے، یہ سلسلہ ایک طرف اپنے محسنوں کی قدر سناشی ہے تو دوسری طرف اس سے نسل نو کو چراغ راہ ملنے کی امید ہے۔
آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدرفقیہ ا لعصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ نے اپنے تاثراتی پیغام میں سیمینار کے انعقاد پر نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
بڑی خوشی کی بات ہے کہ بصیرت آن لائن علماء و مفکرین کی قیادت میں سوشل میڈیا کے ذریعہ دعوت و اصلاح اور تعلیم و تربیت کے عنوان سے نمایاں خدمات انجام دے رہا ہے، اس نے مدھوبنی کی اہم شخصیات پر سیمیناروں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے اور بحمدللہ اب تک اس کے دو سیمینار منعقد ہوچکے ہیں، اس وقت یہ تیسرا سیمینار منعقد ہونے جارہا ہے، میں اس اہم اقدام پر بصیرت آن لائن، اس کے چیف ایڈیٹر مولانا غفران ساجد قاسمی اور پوری بصیرت ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور توقع کرتا ہوں کہ آئندہ وہ بہار کے دوسرے علاقوں اور پھر بہار سے نکل کر دوسری ریاست کی علمی و فکری شخصیات پر اسی طرح کے پروگرام منعقد کریں گے، کیوں کہ بصیرت پوری اردو دنیا کے لئے ہے، ابھی اس نے اپنے وسائل اور تعلقات کے اعتبار سے مدھوبنی کے حلقے تک اپنے پروگراموں کو محدود رکھا ہے، لیکن ان شاء اللہ آئندہ اس میں وسعت پیدا ہوگی اور پورے ملک کے اہل علم پر ایسے مختصر سیمینار منعقد ہوں گے اور اس کے نتیجے میں فراموش کردہ شخصیات کے نام اور کام کو ایک نئی زندگی حاصل ہوگی اور نئی نسل ان کی زندگی سے روشنی حاصل کرے گی۔دارالعلوم قاسمیہ بالاساتھ کے مہتمم قاری حفظ الرحمن صاحب نے سیمینار کے انعقاد پر بصیرت ٹیم کو خصوصی مبارکباد پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ سیمینار کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے، اس قابل قدر مہم کو مدھوبنی تک محدود رکھنے کے بجائے کم از کم پورے بہار تک اسے عام کیا جائے۔
اخیر میں مہمان خصوصی حضرت مولانامحمد سفیان صاحب قاسمی مہتمم دارالعلوم دیوبند وقف نے اپنے تاثراتی خطاب میں فرمایا کہ اس خطہ کے علماء سے قدیم تعلقات کے باوجود یہاں پہلی مرتبہ میرا آنا ہوا ہے، یہاں آنے کے بعد محسوس ہوا کہ اس سرحدی علاقہ میں کام کرنے والوں نے کتنی عظیم قربانیاں پیش کی ہیں، صحیح بات ہے کہ ہم مشاہیر کو تو یاد رکھتے ہیں جو ان کا حق بھی ہے لیکن زمینی سطح پر کام کرنے والے عموما بھلا دئے جاتے ہیں، جب کہ ان کی جد و جہد سے بھری زندگی میں بھی ہمارے لئے بے شمار اسباق ہیں، بصیرت ٹیم نے جو سلسلہ شروع کیا ہے بادی النظر میں چھوٹا لیکن حقیقت میں بڑا کام ہے، جن علماء کی تصنیفات نہیں صرف زمینی خدمات ہیں ان کے حالات جمع کرنا بڑا محنت طلب ترین کام ہے، یہ تو سمندر سے موتی نکالنے جیسا دشوار عمل ہے، اس کے لیے بصیرت ٹیم کے ساتھ اس کے تمام معاونین اور بالخصوص مقالہ نگار حضرات خصوصی مبارکباد کے مستحق ہیں، اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ان تمام حضرات کو ثابت قدمی عطاء فرمائے، پھر حضرت مولانامحمد سفیان صاحب قاسمی کی دعا پر سیمینار کا اختتام ہوا۔
اس موقع پر تمام منتظمین بالخصوص مولانا رضوان احمد قاسمی بینی پٹی، سابق استاد دارالعلوم وقف دیوبند،مولانا نصراللہ قاسمی بینی پٹی،کنوینر سیمینار، مولانا عبدالناصر سبیلی اجرا، مولانا انس عباد صاحب قاسمی، مولانا نوشاد احمد نثاری، مولانا شاہد صاحب مکیاوی، نفیس اختر صاحب ،مولاناجاویداختر حلیمی صاحب اور مولانامظفر رحمانی صاحب کو خصوصی مبارکباد کہ ان کی شبانہ روز محنتوں سے ہی اس قدر کامیاب پروگرام کا انعقاد ممکن ہوا۔
مولانا غفران ساجد صاحب قاسمی کو ایک بار پھر مبارکباد کہ روز اول سے انہوں نے جس طرح بصیرت ٹیم کو اس سیمنار کیلئے مہمیز کیا، ان کی حوصلہ افزائی کی۔ پروگرام کی کامیابی کا یقین پیدا کیا، علمائےمدھوبنی کی خدمات سے دنیا کو واقف کرانے پر اکسایا اور یہ یقین دلا یا کہ اگر انسان شوق و جذبہ، حوصلہ و ولولہ سے لیس ہو تو کسی ”پنگھٹ کی ڈگر“ کبھی ”کٹھن“ نہیں ہوتی۔
وہ ان کے مخلص و وفا شعار، حوصلہ مند ہونے کے ساتھ، علم دوست، اور علماء نواز ہونے کی بین دلیل ہے۔
اللہ ان تمام حضرات کو سلامت رکھے۔دعا ہے کہ یہ مبارک سلسلہ جاری و ساری رہے۔