اسجد عقابی
مضمون نگار دارالعلوم وقف دیوبندمیں شعبہ انگریزی کے استاذ ہیں۔
مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر ممبئی اور اس سے ملحق اداروں کے داخلہ امتحان کا تحریری امتحان 4 فروری بروز اتوار جبکہ تقریری امتحان 5 فروری بروز سوموار منعقد ہوا، پہلے مرحلہ میں تقریباً پانچ سو طلبہ کرام شریک امتحان ہوئے اور تقریری امتحان کے بعد تین سو کے قریب طلبہ کرام کا مختلف اداروں میں انتخاب عمل میں آیا۔ ہر سال ماہِ رجب میں مرکز المعارف اور اس سے ملحق اداروں کے ذمہ داران بغرض امتحان تشریف لاتے ہیں، اور انگریزی زبان سیکھنے کے شوقین طلبہ کو دو سالہ ڈپلومہ انگریزی زبان میں، علماء کرام کی نگرانی میں کرایا جاتا ہے۔ ان اداروں کی اہمیت و افادیت جگ ظاہر ہے اور ان سے وابستہ افراد ملک و بیرون ملک میں مختلف عہدوں پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ سال رواں بھی یہ قافلہ مولانا برہان الدین قاسمی (ڈائریکٹر مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر ممبئی) کی قیادت میں دیوبند پہنچا، جس میں انکلیشور گجرات، حیدرآباد، ویسٹ بنگال، آسام، مدھیہ پردیش، سورت گجرات، آکولہ مہاراشٹر کے ذمہ داران شامل تھے۔

امتحان کی گہما گہمی اور مشغولیت کے بعد دیوبند میں موجود اساتذہ کرام سے ملاقات کا سلسلہ بروز بدھ شروع کیا گیا۔ بدھ کی صبح حضرت مفتی ابو القاسم نعمانی ( مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند) کی خدمت میں حاضری ہوئی، حضرت والا مذکورہ اداروں کے کام کی نوعیت سے واقف ہیں، چنانچہ حضرت نے نصیحت کے ساتھ حوصلہ افزائی فرمائی، بعد ازاں، تمام حضرات، دارالعلوم وقف دیوبند تشریف لائے جہاں حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی ( مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند) سے خوشگوار ملاقات ہوئی، حضرت نے بھی فرحت و شادمانی کا اظہار فرمایا اور کام کو سراہا، دارالعلوم وقف دیوبند کے فعال و متحرک نائب مہتمم و ڈائریکٹر حجۃ الاسلام اکیڈمی ڈاکٹر مولانا محمد شکیب قاسمی سے ملاقات ہوئی۔ بعد ازاں، یہ قافلہ مولانا برہان الدین قاسمی، مفتی محمد اللّٰہ قاسمی، مولانا محمد توقیر قاسمی، مفتی محمد اسعد جلال قاسمی، مولانا محمد مدثر قاسمی اور دیگر احباب پر مشتمل خانقاہ رائے پور کی زیارت کے لیے دیوبند سے روانہ ہوا۔
خانقاہ رائے پور کو اگر ایک جملہ میں بیان کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ شاہ عبد الرحیم رائے پوری کے دور سے ہی بر صغیر کی تمام خانقاہوں کا مرکز ہے۔ اس خانقاہ کے فیوض وبرکات اور روحانی خدمات کے متعلق ہمارے اسلاف و اکابرین کی تحریریں گواہ ہیں۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی، بانی تبلیغ مولانا محمد الیاس، سید عطاء اللہ شاہ بخاری، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا حسین احمد مدنی، شیخ محمد زکریا کاندھلوی، مولانا ابو الحسن علی ندوی، مولانا منظور نعمانی علماء ہند کا عظیم قافلہ مختلف ادوار میں رائے پور کے مختلف شیوخ سے منسلک رہا ہے، یا کم از کم ان کی خدمات، رجوع الی اللہ، اخلاص و للہیت اور قوم کے تئیں فکر مندی کا معترف رہا ہے۔ 1857 کے دور میں ارتداد کی آندھی نے اپنے پاؤں پسارے اور حکومتی سطح پر عیسائی مبلغین کی سرپرستی کی گئی، ایسے حالات میں خانقاہ رائے پور نے زمینی سطح پر مقابلہ کیا، پورے علاقے میں مکاتب قائم کئے گئے اور تربیت یافتہ اساتذہ فراہم کئے گئے۔ اسی دور میں شاہ عبد الرحیم رائے پوری کے مشورہ سے مولانا نور محمد نے چھوٹے بچوں کے لیے ایک ابتدائی قاعدہ مرتب فرمایا جسے حضرت نے "نورانی قاعدہ” کا نام دیا۔ ڈیڑھ صدی کا عرصہ گزر گیا لیکن آج بھی مکاتب و مدارس میں نورانی قاعدہ پڑھایا جاتا ہے۔
بہر حال یہ مضمون طویل ترین بحث کا متحمل نہیں ہے، دن کے بارہ بجے کے قریب ہم تمام افراد چار مختلف گاڑیوں میں سہارنپور کے راستے روانہ ہوئے۔ سہارنپور میں ہمارے رفیق درس اور مرنجان مرنج طبیعت کے مالک مولانا ارشاد ندوی شریک قافلہ ہوئے۔ ہماری گاڑی میں مفتی محمد اسعد جلال قاسمی (استاذ و مفتی دارالعلوم وقف دیوبند) مولانا عبد الحمید قاسمی (استاذ دارالعلوم دیوبند) مولانا محمد حسین قاسمی ( شعبہ انٹرنیٹ دارالعلوم دیوبند) مفتی محمد انظر قاسمی ( استاذ معہد العالی حیدرآباد) مولانا محمد ارشاد ندوی (مدرسہ احیاء العلوم سہارنپور) شامل تھے۔ اس قافلہ کا پہلا پڑاؤ ” خانقاہ پٹھیر” میں ہوا۔ فی الحال خانقاہ کے متولی شیخ صوفی معین الدین صاحب ہیں، اس خانقاہ کو صوفی منظور حسن صاحب نے قائم کیا تھا جو ملا جی عبد الکریم بوڑھیوی کے خلیفہ تھے۔ ان خانقاہوں کی برکت، یہاں رہنے والے اہل دل کی تڑپ، خالق کائنات سے لگاؤ اور عشق حقیقی کے متوالوں کا فیض ہے کہ جدت پسندی کے اس دور میں بھی علاقوں میں دینی علوم اور دینی غیرت و حمیت عوام میں پائی جاتی ہے۔ ہمہ وقت زائرین و شائقین کی آمد رہتی ہے، تزکیہ قلوب کی خاطر سفر کرنے والوں کی رہائش کا معقول نظام ہے، دور دراز سے لوگ اصلاح نفس کے لیے آتے ہیں اور حرارت ایمانی سے قلوب کو منور کرتے ہیں۔ خانقاہ کے احاطہ میں چھوٹا سا ادارہ بھی قائم ہے، جس میں ننھے ننھے بچے حفظ قرآن کی سعادت حاصل کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ان خانقاہوں میں جانے کے بعد روحانیت کا جو اثر پیدا ہوتا ہے وہ الفاظ میں بیان نہیں کئے جاسکتے ہیں۔ خانقاہ میں ہماری ملاقات شیخ صوفی معین الدین صاحب سے ہوئی جو عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ خانقاہی نظام کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ مختصر ملاقات اور چائے ناشتہ کے بعد قافلہ آگے بڑھا اور کچھ دور بعد آل انڈیا ملی کونسل کے صدر مولانا عبد اللہ مغیثی صاحب کے صاحبزادہ مولانا عبد المالک مغیثی صاحب کے مدرسہ میں حاضری ہوئی۔ سوئے اتفاق کہ مولانا موجود نہیں تھے، البتہ وہاں کے دیگر اساتذہ کرام سے ملاقاتیں ہوئیں، مدرسہ کا نظم و نسق اور صفائی ستھرائی قابلِ دید ہے، مہمانوں کے بیٹھنے کے لیے معقول انتظام ہے۔ مدرسہ میں حفظ و عربی درجات کے علاوہ شاہین گروپ کے تحت اسکولی نظام بھی قائم ہے۔ وقت کی تنگی معائنہ سے مانع رہی، اور جلدبازی میں ہمیں منزل مقصود کی جانب روانہ ہونا پڑا۔ خانقاہ رائے پور تقریباً شام چار بجے حاضری ہوئی۔
خانقاہ رائے پور میں حاضری کا پہلا موقع تھا، اب تک اپنے اسلاف و اکابرین کو ہمیشہ خانقاہ کا تذکرہ کرتے دیکھا اور سنا تھا، خصوصاً جب بھی شاہ عبد الرحیم رائے پوری اور ان کے جانشین شاہ عبد القادر رائے پوری کا ذکر خیر ہوتا اور ان حضرات کی قربانیوں کا تذکرہ ہوتا تو دل میں ہمیشہ کسک محسوس ہوتی کہ اتنے قریب ہونے کے باوجود اب تک اس مقدس اور بابرکت جگہ پر حاضری نہیں ہوسکی ہے۔ برسوں کی تمنا اور آرزو پوری ہونے کو تھی، دل بے قرار کو چین نصیب ہونے والا تھا، آنکھیں اشکبار تھیں، جب ہمارا قافلہ خانقاہ کے احاطہ میں داخل ہوا تو عجیب سا سکون محسوس ہوا، ایک عجیب سی خاموشی اور کیف سا سماں بندھا ہوا تھا۔ کتابوں میں پڑھے ہوئے حالات، اکابرین کی بیان کردہ باتیں، جگہوں کی نشاندھی آنکھیں تمام منظر کو تلاش کرتی پھر رہی تھی۔ سب سے پہلے شیخ عتیق احمد رائے پوری کی خدمت میں حاضری ہوئی (خانقاہ کے متولی اور جانشین مفتی عبد القیوم رائے پوری)۔
اللّٰہ سے ملوا جاتی ہے صحبت اللّٰہ والوں کی۔
آپ نے خندہ پیشانی کے ساتھ تمام افراد سے مصافحہ فرمایا، سفر کی نوعیت دریافت فرمائی۔ مولانا برہان الدین قاسمی صاحب نے مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر ممبئی کی مختصر تاریخ اور دیگر اداروں کے حالات کو بیان کیا، نیز فارغین مرکز المعارف کے کام کو بتایا کہ کن مقاصد کے تحت یہ ادارے وجود میں آئے ہیں اور اب تک کس حد تک ہمیں کامیابی ملی ہے۔ اب تک جن کتابوں کا انگریزی ترجمہ کیا گیا ہے، یا جو کتابیں انگریزی زبان میں لکھی گئی ہیں ان کا مختصر تعارف حضرت شیخ سے کرایا گیا۔ حضرت شیخ خود بھی دینی و دنیاوی علوم سے گہری واقفیت رکھتے ہیں، انگریزی زبان و ادب پر اچھی گرفت ہے، آپ کے سامنے تصوف کے موضوع پر لکھے گئے مضامین کا انگریزی ترجمہ موجود تھا، جس میں خاص طور پر مولانا ابو الحسن علی ندوی اور مولانا منظور نعمانی کے تفصیلی مضامین درج ہیں۔ حضرت شیخ نے نصاب کے متعلق سننے کے بعد کتاب بطور ہدیہ مولانا برہان الدین صاحب کو پیش فرمایا، نیز کہا کہ اگر آپ اسے شامل نصاب کریں تو یہ کتاب تمام کے لیے ہماری جانب سے ہدیہ ہوگی۔ اکابرین کی تائید و تصدیق بہت معنی خیز ہوا کرتی ہے، اللّٰہ تعالیٰ حضرت شیخ کے سایہ کو امت پر دراز فرمائیں۔ چند منٹ کی مختصر گفتگو میں حضرت شیخ نے ایک عجیب واقعہ بیان فرمایا، شاہ عبد الرحیم رائے پوری اپنے حجرہ میں آرام کر رہے تھے، رات کا وقت تھا، بغل کا کمرہ خادم کا تھا، بوجہ ضرورت خادم کو آواز دی، لیکن کوئی جواب نہیں ملا، کئی بار آواز دینے کے بعد خود خادم کے کمرہ میں تشریف لے گئے، کمرہ خالی تھا، البتہ چراغ کی روشنی میں چند لکھے ہوئے اوراق بکھرے پڑے تھے، حضرت شیخ نے اوراق کو سمیٹا اور اپنے کمرہ میں آگئے۔ چند لمحوں بعد جب خادم واپس آیا، کمرہ کے حالات کا جائزہ لیا تو انہیں احساس ہوگیا کہ حضرت کمرہ میں تشریف لائے تھے، خادم نے حضرت کے کمرہ پر دستک دی اور اندر داخل ہوگیا، حضرت شیخ نے فرمایا کہ یہ کاغذات کیسے ہیں اور ان میں کیا جمع کر رہے ہو، خادم نے جواب دیا، حضرت آپ کے احوال و ارشادات جمع کئے ہیں۔ حضرت شیخ نے انگیٹھی منگائی، اس میں تمام اوراق کو نذرِ آتش کر دیا، پھر فرمانے لگے، جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسی مقدس اور پاک ہستیوں کے تذکرے موجود ہیں تو پھر ہم جیسے لوگوں کے تذکرے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت رائے پوری محض خانقاہی شخص نہیں تھے، بلکہ آپ کا علمی جاہ و جلال بھی علماء کرام کے نزدیک مسلم تھا، آپ نے حضرت شیخ الہند کے ترجمہ قرآن پر نظر ثانی کی تھی، علاوہ ازیں، آپ بیک وقت دارالعلوم دیوبند اور مظاہر علوم سہارنپور کے سر پرست بھی تھے۔ اتنی عظیم ہستی لیکن نام و نمود اور شہرت و ناموری سے ایسی دوری کہ اپنے تذکرہ کو بھی پسند نہیں فرمایا کرتے تھے۔ موجودہ دور میں ہمارے طبقہ کا حال یہ ہے کہ اشتہارات میں القابات کے درمیان نام تلاش کرنا مشکل ہو جاتا ہے، بسا اوقات کئی سطروں کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ فلانے کا اصل نام کیا ہے۔ وہ اللّٰہ والے لوگ تھے، جنہوں نے پردہ اخفاء میں رہ کر دین اسلام کی اشاعت میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
بہرحال ہمارا یہ قافلہ چند ساعتوں تک حضرت شیخ کی خدمت میں رہا، آپ نے ہمارے لیے دسترخوان بچھانے کا حکم فرمایا، زندگی میں پہلا واقعہ تھا، جب رائے پور کی خانقاہ میں جہاں عالم اسلام سے بڑے بڑے مفکرین و محدثین جبینِ نیاز خم کرنے اور اصلاح نفس کے لیے آیا کرتے تھے، آج ہم جیسے گناہگار بھی اس قافلہ میں شریک ہونے کی خاطر موجود تھے۔ عصر کی نماز کے بعد حسبِ معمول ذکر و اذکار کی محفل سجی، بعد ازاں، حضرت شیخ کے حکم پر حضرت مولانا توقیر صاحب قاسمی (استاذ دارالعلوم دیوبند) نے طلبہ کرام کے درمیان مختصر گفتگو فرمایا۔ مغرب کا وقت ہوا چاہتا تھا، وقت اپنی قلت پر شکوہ کناں تھا، ایک جانب قلبی کیفیت تھی جو اس دیار سے جانے کو تیار نہیں تھی، دوسری جانب سفر کی ترتیب مزید قیام سے مانع تھی۔ اس عزم و استقلال کے ساتھ خانقاہ سے روانہ ہوئے کہ ان شاءاللہ، اب یہاں آنے کا سلسلہ جاری رکھنا ہے۔
رائے پور کا محل وقوع اتر پردیش اور ہریانہ کی سرحد پر ہے، وہاں سے کچھ فاصلے پر یمنا ندی ہے، جہاں ایک بڑا ڈیم تیار کیا گیا ہے، تاکہ پہاڑی سے آنے والے پانی کو محفوظ کیا جائے، اور تباہی سے بچنے کی کوشش کی جائے، یمنا ندی پر واقع اس ڈیم کے پورے احاطہ کو ” ہتھنی کنڈ” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہتھنی کنڈ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہاں شاہ جہاں کا ہاتھی ڈوب گیا تھا۔ ہندوستان کے چپے چپے اور گوشے گوشے میں اسلامی سلطنت اور مسلم بادشاہوں کی یادگاریں ہیں، کہاں تک مٹایا جاسکتا ہے۔
ہمارا قافلہ خانقاہ رائے پور سے رخصت ہوکر ہتھنی کنڈ کی جانب روانہ ہوا، یہاں سے مفتی فیضان اللّٰہ قاسمی ابن مولانا مجیب اللّٰہ گوونڈی (استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند) بھی شریک سفر ہوئے، مفتی صاحب رائے پور میں ہی دینی ادارہ سے وابستہ ہیں اور قوم کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت میں خصوصی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہتھنی کنڈ پر فضا اور سیاحتی مقام ہے۔ لوگ دور دراز سے پانی کے ذخائر اور ڈیم دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ پہاڑ کی وادی میں واقع ہونے کی وجہ سے ہواؤں کا تسلسل ہمیشہ قائم رہتا ہے، سورج دن بھر آنکھ مچولی کھیلنے کے بعد غروب ہونے کو تھا، موسم کی خنکی شباب پر تھی، تیز ہوائیں بدن میں گھستی محسوس ہورہی تھی، یخ بستہ ہوا نے بدن پر کپکپی طاری کردیا تھا۔ ہمارے قافلہ میں بیشتر افراد گرم علاقوں سے تشریف لائے تھے، اس لئے فروری کے ابتدائی ایام کی سردی (ٹھنڈی) سے آشنائی نہیں تھی، چنانچہ بیشتر افراد سردی سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنے میں ناکام تھے، نہ تو وہاں کوئی گرم جگہ تھی اور نہ ہی گرم کپڑے۔ لہذا، چند ساعتوں بعد سردی کا احساس اپنے عروج پر تھا، مناسب خیال کیا گیا کہ جلد از جلد یہاں سے روانہ ہوا جائے۔ سورج مغرب میں روپوش ہوچکا تھا، اندھیرا ہر جانب پھیلنے لگا تھا، واپسی میں رائے پور سے متصل بستی میں مغرب کی نماز ادا کی گئی اور پھر چھٹمل پور کے لیے روانہ ہوگئے۔
چھٹمل پور کی اپنی تاریخ ہے اور دین اسلام کی حفاظت و صیانت میں اپنا کردار ہے، یہاں کاشف العلوم نامی مدرسہ قائم ہے جہاں سینکڑوں تشنگان علوم نبویہ اپنی تشنگی بجھانے کے لیے ملک کے گوشے گوشے سے دیوانہ وار آتے ہیں۔ چھٹمل پور ہمارے راستہ میں تھا، جب اس قافلہ کی اطلاع مولانا عثمان ندوی (اپنا دسترخوان ہوٹل کے مالک) کو اطلاع ہوئی تو وہ ملاقات کے خواہاں ہوئے۔ چنانچہ شام ساڑھے سات بجے کے قریب ان کی ہوٹل پر ملاقات ہوئی۔ مولانا عثمان ندوی صاحب گوناگوں خصوصیات کے مالک ہیں، اپنا ہوٹل، اپنا ادارہ بھی چلاتے ہیں نیز ٹور کا کاروبار بھی ہے، جس میں علماء کرام کو خصوصی رعایت دی جاتی ہے۔ مولانا نے بتایا کہ اب دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم وقف دیوبند نیز قرب و جوار کے علماء کرام عمرہ کے لیے عموماً ہمارے ٹور کو ترجیح دیتے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ مزید ترقیات سے نوازے۔ مولانا سے محض چائے نوشی کی بات ہوئی تھی، لیکن چائے کے لوازمات (وائے) ایسے لذیذ اور خوشبودار تھے کہ سفر کی تھکاوٹ دور ہوگئی۔ چھٹمل پور سے ہم تقریباً آٹھ بجے آخری پڑاؤ "نلہیڑہ” کے لیے روانہ ہوئے۔
روڑکی کے قریب واقع اس گاؤں میں قاری محمد اکرام صاحب نے ایک عظیم الشان اور بافیض ادارہ بنام ” مدرسہ صدیقیہ” قائم کیا ہے۔ اس ادارہ کی بنیاد عارف باللہ حضرت مولانا قاری صدیق صاحب نے رکھا تھا، قاری اکرام صاحب کو حضرت قاری صاحب سے شرف تلمذ بھی حاصل ہے۔ قاری اکرام صاحب کے صاحبزادہ مولانا عمیر صاحب مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر کے فیض یافتہ ہیں، محترم موصوف کافی خوش مزاج اور ملنسار طبیعت کے مالک ہیں۔ مہمان نوازی میں طاق ہیں اور اساتذہ کرام سے بے لوث محبت رکھتے ہیں۔ بے تکلف دوست اور مددگار رفیق ہیں۔ تقریباً نو بجے ہم مدرسہ پہنچے، عشاء کی نماز ادا کی گئی، لیکن سوئے اتفاق کہ قاری اکرام صاحب سے ملاقات نہیں ہوسکی۔ مولانا عمیر صاحب اور ان کے بڑے نیز مدرسہ کے دیگر اساتذہ کرام سے ملاقاتیں ہوئیں، بعد ازاں دسترخوان بچھایا گیا اور روڑکی کو ہم دیوبند والے صرف کلیر کی وجہ سے نہیں بلکہ تازہ اور شاندار مچھلیوں کے واسطے سے بھی جانتے ہیں۔ مولانا عمیر صاحب نے حق ضیافت ادا کر دیا تھا۔ مدرسہ صدیقیہ بہر دو اعتبار مثالی اور کامیاب ادارہ ہے۔ تعلیمی معیار نہایت عمدہ ہے، اساتذہ کرام قابل اور محنتی ہیں اور سب سے بڑھ کر اساتذہ کرام کی تنخواہوں کا معیار کافی اچھا ہے۔ کھانے کے بعد کچھ دیر کی چہل قدمی ہوئی اور پھر ساڑھے دس بجے کے قریب ہم دیوبند کے لیے روانہ ہوئے۔ رات ساڑھے گیارہ بجے بندہ اپنی قیام گاہ پہنچا۔
یہ سفر کئی لحاظ سے یادگار ہے، اور اس کی یادیں باقی رہیں گی۔
I am always searching online for tips that can assist me. Thx!