بہار میں انتخاب-نئی امیدیں اورنئی صف بندیاں
ازـــــــــ ڈاکٹر عادل عفان
جمہوری ممالک کی دلکشی انتخابات میں بھی نظر آتی ہے۔ کیوں کہ تمام تر پارٹیاں اپنی اپنی ڈفلی اور اپنے اپنے راگ کے ساتھ میدان میں ہوتی ہیں۔ اس پس منظر میں بہار کا منظر نامہ بھی خوب ہوتا ہے۔ کیوں کہ وہاں ذات پات کے ساتھ نئی صف بندیاں ہمیشہ گل کھلاتی ہیں۔وہاں الیکشن سماجی، ثقافتی اور سیاسی تہوار کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ یہاں کے عوام نہ صرف اپنی سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ اکثر وہ فیصلے بھی صادر کرتے ہیں جو قومی سیاست کا رخ تک بدل دیتے ہیں۔مگر اس بار کا انتخاب کچھ زیادہ ہی منفرد اور غیر روایتی ہو گیا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنی پرانی حکمت عملیوں کو ترک کر کے نئے اتحاد، نئے نعرے اور نئے چہرے سامنے لا رہی ہیں۔ ذات پات، ترقی، اعتماد، دھوکہ، نوجوان قیادت، پرانی وراثت، اور نئی امیدیں —یہ سب ایک ساتھ عوام کے دماغ اور دل پر دستک دے رہے ہیں۔
بی جے پی اور جے ڈی یو کا اتحاد بہار کی سیاست کا اہم ترین عنصر ہے۔ ماضی میں دونوں جماعتوں نے مل کر کئی مرتبہ حکومت بنائی، لیکن ان کا رشتہ ہمیشہ نشیب و فراز سے بھرا رہا ہے۔ نریندر مودی کی بی جے پی ایک قومی طاقت کے طور پر اپنی شناخت رکھتی ہے، جبکہ نیتیش کمار کی جے ڈی یو کو بہار کے زمینی سیاسی تقاضوں کی گہری سمجھ ہے۔ یہ اتحاد وقتی طور پر مضبوط ضرور لگتا ہے، مگر اس میں عدم اعتماد کی دراڑیں بھی واضح دکھائی دیتی ہیں۔
نتیش کمار کی شبیہ ایک صاف ستھری اور ترقی پسند لیڈر کی رہی ہے، لیکن حالیہ برسوں میں ان کی عوامی مقبولیت میں شاید کچھ کمی آئی ہے۔ وہ کئی بار اپنے سیاسی اتحادی بدل چکے ہیں، کبھی بی جے پی کے ساتھ، کبھی آر جے ڈی کے ساتھ، اور پھر دوبارہ بی جے پی کے ساتھ۔ ان کی سیاسی قلابازیاں عوام کے درمیان ایک سوالیہ نشان بن چکی ہیں۔ ایسے میں بی جے پی کے ساتھ ان کا نیا اتحاد محض عددی فائدے کے لیے کتنا پائیدار ہوگا، یہ وقت ہی بتائے گا۔لالو پرساد یادو کی سیاسی وراثت کو سنبھالنے کے لیے ان کے بیٹے تیجسوی یادو نے نہ صرف حوصلہ دکھایا بلکہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے عوام کو متاثر بھی کیا ہے۔ آر جے ڈی کا پرانا ووٹ بینک اب بھی موجود ہے، خاص کر پسماندہ طبقات اور مسلمانوں میں، لیکن تیجسوی نے اس کے ساتھ نوجوانوں کو بھی مخاطب کیا ہے۔ وہ تعلیم، روزگار، اور عزت کی سیاست کی بات کرتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ان کے جلسوں میں نوجوانوں کی بڑی تعداد دیکھی جاتی ہے۔
2015 کے انتخابات میں وہ نائب وزیر اعلیٰ بنے اور کچھ حد تک اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ بھی کیا، مگر ان کے تجربے کی کمی اور کئی اندرونی خلفشار آر جے ڈی کو ایک مضبوط متبادل کے طور پر کھڑا کرنے میں رکاوٹ بنے۔ اس بار وہ کہیں زیادہ پختگی کے ساتھ میدان میں ہیں۔ ان کی تقریریں جارحانہ بھی ہیں اور جذباتی بھی۔ وہ عوام کو یہ احساس دلا رہے ہیں کہ پرانی غلطیوں سے سیکھ کر اب وہ ایک نئی قیادت کے طور پر خود کو منوانے آئے ہیں۔
رام ولاس پاسوان کی وفات کے بعد ایل جے پی ایک قیادت کے خلا کا شکار ضرور ہوئی، مگر چراغ پاسوان نے اس خلا کو پر کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ان کی حکمت عملی غیر روایتی ہے۔ وہ بی جے پی کے قریب ہیں، لیکن نیتیش کمار کے سخت مخالف۔ پچھلے الیکشن میں بھی انہوں نے اسی حکمت عملی سے نتیش کی جے ڈی یو کو خاصا نقصان پہنچایا تھا۔چراغ خود کو ”بہار فرسٹ، بہاری فرسٹ“کے نعرے کے ساتھ ایک نئے بہار کا چہرہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا لب و لہجہ جارحانہ ہے، اور وہ نتیش کمار کو بہار کی ترقی میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بی جے پی سے ان کا یہ نیم اتحادی رشتہ کتنی دیر چلے گا؟ کیا وہ اپنے بل بوتے پر اتنے ووٹ حاصل کر سکیں گے کہ کنگ میکر بن جائیں؟ یا ان کی سیاست صرف محدود علاقوں میں اثر رکھے گی؟
پرشانت کشور نے بطور انتخابی حکمت عملی ساز ملک کی کئی بڑی جماعتوں کے ساتھ کام کیا ہے۔ مگر اب انہوں نے خود ایک سیاسی جماعت تشکیل دی ہے: ”جن سوراج“۔ ان کا نظریہ دیگر جماعتوں سے خاصا مختلف ہے۔ وہ براہِ راست عوام سے رابطہ رکھتے ہیں، گاؤں گاؤں، گلی گلی، لوگوں کے مسائل سنتے ہیں اور انھیں حل کرنے کے وعدے کرتے ہیں۔ان کی تحریک کا محور ہے عوامی شرکت، سیاسی شفافیت، اور بدعنوانی سے پاک نظام۔ پرشانت کشور کا سیاسی بیانیہ عام انتخابی نعروں سے مختلف ہے۔ وہ جذبات کی بجائے فہم و شعور کی بات کرتے ہیں۔ بہار جیسے پیچیدہ سیاسی منظرنامے میں ان کی سیاست کتنی کامیاب ہو پاتی ہے، یہ تو انتخابی نتائج بتائیں گے، مگر اس میں شک نہیں کہ وہ ایک نیا متبادل سامنے لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔کیا رام ولاس کی طرح پرشانت کشور اپنے آپ کو منواسکیں گے؟
بہار کے انتخابات کو ذات پر مبنی سیاست سے کبھی جدا نہیں کیا جا سکا، مگر اب یہ پہلو اکیلا فیصلہ کن عنصر نہیں رہا۔ تعلیم، صحت، روزگار، کسانوں کے مسائل، خواتین کی سلامتی اور مہنگائی جیسے موضوعات اب مرکزی بیانیے کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔نوجوان طبقہ جو کبھی صرف نعرے بازی سے متاثر ہو جاتا تھا، اب جاننا چاہتا ہے کہ حکومت اس کے لیے کیا کر رہی ہے۔ لاکھوں نوجوان بہار سے باہر محنت مزدوری کے لیے نکلتے ہیں۔ اگر بہار میں روزگار کے بہتر مواقع پیدا کیے جائیں، تو یہی نوجوان فیصلہ کن ووٹر بن سکتے ہیں۔ اسی لیے تمام جماعتیں اب روزگار، صنعتی ترقی، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کی بہتری کی بات کر رہی ہیں۔
اب سوشل میڈیا بھی الیکشن کا خاص حصہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ بہار میں ہر جماعت اپنی ڈیجیٹل موجودگی کو مضبوط کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر بی جے پی کی مہم منظم نظر آتی ہے، جبکہ آر جے ڈی نوجوانوں میں اپنی موجودگی کو بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ پرشانت کشور کا ”جن سنواد“لائیو پیش کیا جاتا ہے۔ میڈیا بیانیے بنانے میں طاقتور کردار ادا کر رہا ہے، اور عوام بھی خبروں اور تجزیوں کو ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔

بہار اور یوپی کا الیکشن ہمیشہ لوک سبھا کے تناظر میں بھی دیکھا جاتا ہے۔ کیوں کہ ان دو ریاستوں کے تانے بانے سے ملک کا عام انتخاب بھی متاثر ہوتا ہے۔ اس لیے بہار کے اس الیکشن کے نتائج صرف ریاستی حکومت کا تعین نہیں کریں گے بلکہ 2029 کے لوک سبھا انتخابات کے لیے بھی ماحول تیار کریں گے۔ اگر بی جے پی اور جے ڈی یو مل کر کامیاب ہوتے ہیں تو یہ مودی حکومت کے حق میں مضبوط پیغام ہوگا۔ اگر تیجسوی یادو کی قیادت میں اپوزیشن اتحاد کامیابی کے جھنڈے لہراتا تو یہ نریندر مودی اور ان کے حلیفوں کے غور وفکر کا سبق ہوگا۔بہار میں بھی تبدیلی آرہی ہے۔ کیوں کہ عوام اب صرف وعدوں پر نہیں، کارکردگی پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ یہاں کا الیکشن دل چسپ ہوسکتاہے۔ یہ واقعہ ہے کہ اب باشندگان بہار روایتی سیاست کے خول سے باہر نکل کر نئی قیادت، نئے بیانیے اور نئے امکانات کو آزمانا چاہتے ہیں۔ ہر نیا الیکشن ایک نئی کروٹ، ایک نیا امکان اور ایک نئی امید لے کر آتا ہے۔بہار کا یہ انتخاب بھی یقینا ہندوستانی جمہوریت کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کرے گا۔کیوں کہ یہاں نئی صف بندیاں اور نئی امیدوں کا جشن جاری ہے۔