"آزادی کا سفر: قربانی، جدوجہد اور ہمارا  فریضہ”

Eastern
14 Min Read
478 Views
14 Min Read

یومِ آزادی (15 اگست) کے موقع پر ایک تاریخی تقریر
عنوان: "آزادی کا سفر: قربانی، جدوجہد اور ہمارا  فریضہ"

Contents
1757 کی جنگِ پلاسی اور نواب سراج الدولہ: آزادی کے جد وجہد کا  آغاز 1757  میں ہوا جب نواب سراج الد ولہ  جو پہلے مجاہد تھے جنہوں نے ایسٹ انڈیاکمپنی کی اصلی نیت و مقصدکو سمجھااور ان کے خلاف آواز اٹھائی۔ اور 1757 میں پلاسی کے میدان میں انگریزوں سے بر سرِ پیکار ہوئے۔وہ   ایک جری اور محبِ وطن حکمران تھے، انگریزوں کے ناپاک عزائم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوئے۔ مگر افسوس! میر جعفر جیسے غداروں کی سازشوں کی وجہ سے یہ جنگ شکست میں بدل  گئی۔یہ صرف ایک جنگ نہیں تھی، بلکہ ہندوستان پر انگریزی اقتدار کی بنیاد تھی۔ یہی وہ دن تھا جب ہندوستان کے اقتدار کا سورج غروب ہونے لگا، اور غلامی کا اندھیرا  چھا گیا۔ اور اس کے بعد برطانوی سامراج نے ہندوستان پر بتدریج قبضہ جمانا شروع کر دیا۔ٹیپو سلطان: شیرِ میسور پھر آیا وہ عظیم مجاہد، ٹیپو سلطان، جسے دنیا شیرِ میسور کے نام سے جانتی ہے۔ ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے اپنی طاقت کا  لوہا منوایا اور زندگی کی آخری سانس تک آزادی کے لیے لڑتے رہے۔ اُن کا کہنا تھا:شاہ ولی اللہ اور شاہ عبدالعزیز کا فتویٰ: اس دور میں جہاں تلوار سے مقابلہ ہو رہا تھا، وہیں اہلِ علم اور دین کے علما ءنے بھی اپنانمایا کردار ادا کیا۔ شاہ ولی اللہ  محدث دہلوی نے ہندوستان میں اسلامی شعور کو بیدار کیا، اور ان کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز دہلوی نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دے کر آزادی کی تحریک کو ایک دینی بنیاد فراہم کی۔ یہ فتویٰ اس وقت کا سب سے بڑا انقلابی قدم تھا جس نے عوامی شعور کو جگایا۔لوگوں میں ولولہ اور جوش پیدا کیا۔

          مولانا بدر الدین اجمل قاسمی  
(سابق ممبر آف پارلیمنٹ و صدر جمعیۃ علما ء صوبہ آسام)

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
معزز حاضرین، بزرگوں، بھائیوں، بہنوں اور میرے عزیز طلبہ و طالبات!
آج 15 اگست ہے—وہ دن جب ہمارا پیارا وطن، ہندوستان، طویل غلامی کے بعد آزاد ہوا۔ یہ صرف ایک تاریخ نہیں، یہ ایک داستان ہے قربانیوں کی، وفاؤں کی، اور حوصلوں کی۔آج ہم جس آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں، جہاں بولنے، سوچنے، لکھنے اور جینے کی آزادی ہمیں حاصل ہے، یہ آزادی ہمیں یوں ہی حاصل نہیں ہوئی  ہے۔بلکہ اس کے پیچھے صدیوں کی قربانیاں، جدوجہد، ایثار اور شہادتوں کی ایک طویل داستان چھپی ہوئی ہے۔

ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے،
اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے۔

 15 اگست کا دن ہمیں نہ صرف خوشی دیتا ہے بلکہ ہمیں اپنے اسلاف کی قربانیوں کو یاد دلانے اور موجودہ نسل کو اپنی ذمہ داریاں سمجھانے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ ہم آج  اُن تمام شہداء کو یاد کرنے کے لیے یہاں موجود ہیں جنہوں نے ہمارے ملک کو آزادی دلانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔

ہماری آزادی کی جدوجہد کوئی معمولی لڑائی نہیں تھی۔ یہ ایک ایسی تحریک تھی جس میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، سب نے مل کر حصہ لیا۔ لاکھوں لوگوں نے اپنی جانیں قربان کیں صرف اس لیے کہ ہم ایک آزاد ملک میں سانس لے سکیں۔ اُس وقت کی یکجہتی ہی ہماری سب سے بڑی طاقت تھی۔

ایسٹ انڈیا کمپنی سولہویں  صدی عیسوی میں تجارت  اور کاروبار کے لیے ہندوستان آئی تھی۔لیکن دھیرے دھیرے انہوں نے اپنی نیت بدل  لی اور حکومت کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ان کی اصل نیت صرف تجارت کرنا نہیں  بلکہ وہ پورے ہندوستان پر قبضہ کر کے یہاں کی دولت کو لوٹنا اور یہاں کے لوگوں کو اپناغلام بنانا تھا۔

1757 کی جنگِ پلاسی اور نواب سراج الدولہ:
آزادی کے جد وجہد کا  آغاز 1757  میں ہوا جب نواب سراج الد ولہ  جو پہلے مجاہد تھے جنہوں نے ایسٹ انڈیاکمپنی کی اصلی نیت و مقصدکو سمجھااور ان کے خلاف آواز اٹھائی۔ اور 1757 میں پلاسی کے میدان میں انگریزوں سے بر سرِ پیکار ہوئے۔وہ   ایک جری اور محبِ وطن حکمران تھے، انگریزوں کے ناپاک عزائم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوئے۔ مگر افسوس! میر جعفر جیسے غداروں کی سازشوں کی وجہ سے یہ جنگ شکست میں بدل  گئی۔یہ صرف ایک جنگ نہیں تھی، بلکہ ہندوستان پر انگریزی اقتدار کی بنیاد تھی۔ یہی وہ دن تھا جب ہندوستان کے اقتدار کا سورج غروب ہونے لگا، اور غلامی کا اندھیرا  چھا گیا۔ اور اس کے بعد برطانوی سامراج نے ہندوستان پر بتدریج قبضہ جمانا شروع کر دیا۔

ٹیپو سلطان: شیرِ میسور
پھر آیا وہ عظیم مجاہد، ٹیپو سلطان، جسے دنیا شیرِ میسور کے نام سے جانتی ہے۔ ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے اپنی طاقت کا  لوہا منوایا اور زندگی کی آخری سانس تک آزادی کے لیے لڑتے رہے۔ اُن کا کہنا تھا:

"شیر کی ایک دن کی زندگی، گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔"

یومِ آزادی (15 اگست) کے موقع پر ایک تاریخی تقریر

ٹیپو سلطان نے اپنے خون سے تاریخ میں وہ باب لکھا جسے نسلیں ہمیشہ یاد رکھیں گی۔اس سے پہلے ان کے والد حیدر علی نے انگریزوں کی مخالفت کی بنیاد رکھی اور انگریزوں  سے دیش کو آزاد کرانے کی جد وجہد میں اپنی جان کی بازی لگا دی۔

شاہ ولی اللہ اور شاہ عبدالعزیز کا فتویٰ:
اس دور میں جہاں تلوار سے مقابلہ ہو رہا تھا، وہیں اہلِ علم اور دین کے علما ءنے بھی اپنانمایا کردار ادا کیا۔ شاہ ولی اللہ  محدث دہلوی نے ہندوستان میں اسلامی شعور کو بیدار کیا، اور ان کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز دہلوی نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دے کر آزادی کی تحریک کو ایک دینی بنیاد فراہم کی۔ یہ فتویٰ اس وقت کا سب سے بڑا انقلابی قدم تھا جس نے عوامی شعور کو جگایا۔لوگوں میں ولولہ اور جوش پیدا کیا۔

1857 کی جنگِ آزادی: پہلی بڑی بغاوت
پھر آیا  1857، جب پورا ہندوستان بیدار ہوا۔ ہندو مسلم ایک ہو کر انگریزوں کے خلاف صف آراء ہوئے۔ہندوستان میں ایک زبردست انقلاب برپا ہوا، جسے غدر یا پہلی جنگِ آزادی کہا جاتا ہے۔ اس میں بہادر شاہ ظفر، نانا صاحب، بیگم حضرت محل، تانتیا ٹوپے، مولوی احمد اللہ شاہ فیض آبادی، رانی لکشمی بائی، ٹیپو سلطان کے وارثین، حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی جیسے کئی عظیم رہنماؤں نے حصہ لیا۔ اس بغاوت میں ہندو مسلم سب نے شانہ بشانہ جنگ لڑی، لیکن سب سے پہلے آواز مسلمانوں نے ہی بلند کی تھی۔یہ بغاوت کامیاب تو نہ ہو سکی، لیکن اس نے آزادی کی چنگاری کو آگ میں بدل دیا۔

1857 سے 1947: جدوجہد کا تسلسل
1857 کے بعد انگریزوں نے ظلم کی انتہا کر دی۔ مگر حریت پسندوں کا جذبہ سرد نہ ہوا۔ ہندوستانیوں کو احساس ہو گیا کہ آزادی آسان نہیں، لیکن ناممکن بھی نہیں۔ اسی جذبے سے کئی تحریکیں چلیں، کئی قربانیاں دی گئیں، اور کئی رہنماؤں نے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ اس طرح جد و جہد کا تسلسل جاری رہا۔

تحریکِ ریشمی رومال:
اسی دور میں ایک بہت اہم تحریک تحریکِ ریشمی رومال کے نام سے اٹھی، جس کے بانی شیخ الہند مولانا محمود حسن تھے۔ یہ ایک خفیہ تحریک تھی، جس کا مقصد انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنا تھا۔اگر یہ تحریک کامیاب ہوجاتی تو  انگریزی دور کا خاتمہ  اسی وقت یقینی ہو جاتا مگر افسوس کہ کچھ وجوہات سے یہ تحریک کامیاب نہ ہو سکی مگر اس نے آزادی کی جد و جہد کو منظم انداز فراہم کیا اور  آنے والے دنوں کی تحریکوں نے اس سے خوب استفادہ کیا۔ اس تحریک نے مجاہدین آزادی کو ایک سمت عطاکی جس پر چل کرآزادی کی منزل ملی۔ اس تحریک میں مولانا عبیداللہ سندھی،  شیخ الاسلام مولانا  سیدحسین احمد مدنی، مولانا مفتی کفایت اللہ اور دیگر علما ءنے اہم کردار ادا کیا۔ شیخ الہند  اور مولانا حسین احمد مدنی سمیت کئی اکابرین کو اس تحریک کے پاداش میں مالٹا کی جیل میں قید کیا گیا، جہاں انہوں نے بڑی تکالیف سہیں۔

خلافت اور عدم ِتعاون تحریک:

  • مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جیسے رہنماؤں نے خلافت تحریک کی بنیاد رکھی جس نے آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔
  • مہاتما گاندھی نے عدم تعاون تحریک شروع کی، جس میں لاکھوں لوگ شامل ہوئے، اور انگریز سامراج کو ہلاکر رکھ دیا۔
  • مولانا ابوالکلام آزاد نے نہ صرف آزادی کی تحریک میں مسلمانوں کی سربراہی کی بلکہ ہندو مسلم اتحاد کا پیغام بھی دیا۔
جلیانوالہ باغ کا سانحہ (1919)
جلیانوالہ باغ کا سانحہ (1919)

جلیانوالہ باغ کا سانحہ (1919):

  • جنرل ڈائر نے نہتے ہندوستانیوں پر گولیاں برسائیں جس میں درجنوں کی جانیں گئیں۔اس ظلم نے پورے ملک کو ہلا دیا، اور انگریزوں کے خلاف نفرت کو مزید ہوا ملی۔

سائمن کمیشن اور سول نافرمانی تحریک:

  • لالہ لاجپت رائے نے سائمن کمیشن کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جان دے دی،
  • گاندھی جی نے نمک مارچ (Salt March) کے ذریعے برطانوی قوانین کو للکارا۔
  • بھگت سنگھ، راج گرو، اور سکھ دیو نے انگریزوں کے خلاف انقلاب کا پرچم بلند کیا اور ہنستے ہنستے پھانسی پر چڑھ گئے۔
  • چندر شیکھر آزاد نے اپنی آخری سانس تک انگریزوں کے خلاف ہتھیار نہیں ڈالے۔:

آخری مرحلہ:

  • 1942 میں "بھارت چھوڑو تحریک" نے انگریزوں کی بنیادیں ہلا دی۔
  • دوسری جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ کمزور ہو چکا تھا، اور ہندوستان کی آواز اب ناقابلِ خاموش بن چکی تھی۔
  • بالآخر  14  اور  15  اگست  1947 کی درمیانی رات، ہندوستان آزاد ہو گیا۔

انقلابی شخصیات:
اس آزادی کے لئےنواب سراج الدولہ، ٹیپو سلطان، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شاہ عبد العزیز دہلوی،  حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا قاسم نانوتوی ،مولانا رشید احمد گنگوہی،اشفاق اللہ خان، خان عبدالغفار خان (سرحدی گاندھی)، مولانا حسرت موہانی، نواب وقار الملک، مختار انصاری، شیخ الہند مولانا محمود حسن، شیخ الاسلام مولانا   سیدحسین احمد مدنی، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا محمد میاں،بہادر شاہ ظفر،مہاتماگاندھی ،مولانا  ابو الکلام آزاد، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی،  مولانا فضلِ حق خیر آبادی، سید احمد شہید، سید اسماعیل شہید،مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا عبید اللہ سندھی،  جواہر لال نہرو،لالہ لاجپت رائے،لکشمی بائی، بیگم حضرت محل، سردار بلبھ بھائی پٹیل، بال گنگا دھر تلک، سروجنی نائیڈو، منگل پانڈے، چندر شیکھر آزاد،لال بہادر شاستری، سبھاش چندر بوس، حکیم اجمل خان، ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈاکٹر راجندر پرساد،  جیسے بے شمار  ایسے رہنما ہیں جنہوں نے قوم کے لیے سب کچھ قربان کیا۔

ہماری ذمہ داری
لیکن آج میں آپ سے ایک نہایت اہم سوال پوچھنا چاہتا ہوں  کہ کیا ہماری ذمہ داریاں ختم ہو گئیں؟                   ہرگز نہیں!

آج ہم آزاد ہیں، لیکن آزادی کو برقرار رکھنا، اُس کی حفاظت کرنا اور اسے نسل در نسل منتقل کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ آزادی فقط جشن منانے کا نام نہیں،یہ قربانیوں کے وعدے کو نبھانے کا نام ہے۔ آج جب ہم آزادی کی 78ویں سالگرہ منا رہے ہیں، تو ہمیں صرف خوشی منانے کے بجائے یہ عہد بھی کرنا چاہیے کہ ہمیں:

  • تعلیم عام کرنی ہے،
  • آپسی نفرتوں کو مٹانا ہے،
  • مذہبی رواداری کو فروغ دینا ہے،
  • کرپشن، جھوٹ، ناانصافی اور نااتفاقی سے لڑنا ہے،
  • دیش کو ترقی کی بلندی پر لے جانے میں حصہ دار بننا ہے

آج اگر ہم واقعی اُن شہیدوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں ان کے خوابوں کا ہندوستان بنانا ہوگا۔ ایسا ہندوستان جہاں ہر شخص برابر ہو، ہر مذہب کو عزت حاصل ہو،جہاں نفرت کی جگہ محبت ہو، جہاں عورتیں محفوظ ہوں، اور جہاں انصاف سب کے لیے یکساں ہو۔

Advertisement
Advertisement

آئیے! ہم سب مل کر عہد کریں کہ:
"ہم اس آزادی کو کبھی مرنے نہیں دیں گے،
ہم فرقہ پرستی، تعصب، اور کرپشن کو جڑ سے ختم کریں گے،
اور اپنے بچوں کے لیے ایک روشن، مضبوط، اور خوشحال ہندوستان چھوڑ کر جائیں گے۔”
آج کی اِس تقریر کا اختتام ہم سب پُر جوش اور ولولہ انگیز نعروں سے کریں گے۔

بھارت کی آزادی کو سلام!
ہندوستان زندہ باد!
وطن کے شہیدوں کو سلام!
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی زندہ باد!
مولانا قاسم نانوتوی زندہ باد!
مولانا رشید احمد گنگوہی زندہ باد!
شیخ الہند مولانا محمود حسن زندہ باد !
مولانا حسین احمد مدنی زندہ باد!
مہاتماگاندھی زندہ باد!
سبھاش چندر بوس زندہ باد!
خان عبدالغفار خان زندہ باد!
مولانا  ابو الکلام آزاد زندہ باد!
بھگت سنگھ زندہ باد!
چندر شیکھر آزاد زندہ باد!
مولانا فضلِ حق خیر آبادی زندہ باد!
جواہر لال نہرو زندہ باد!

آپ سب میرے ساتھ کہیں:

ننھا مُنّا راہی ہوں، دیش کا سپاہی ہوں،
بولو میرے سنگ، جے ہند! جے ہند! جے ہند!

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Trending News

نئے زمانے کے نئے بت

نئے زمانے کے نئے بت ازــــــ محمد توقیر رحمانی زمانے کی گردِش…

Eastern

زندیقیت کا سیلاب، الحاد کی فکری استعماریت کا مظہر اور اسلامی شعور کا کڑا امتحان ہے

زندیقیت کا سیلاب، الحاد کی فکری استعماریت کا مظہر اور اسلامی شعور…

Eastern

شرک جلی کا انکار آسان ہے، مگر شرک خفی کی شناخت ہی سب سے بڑا مجاہدہ ہے

شرک جلی کا انکار آسان ہے، مگر شرک خفی کی شناخت ہی…

Eastern

بہار! آپ کا شکریہ!

بہار! آپ کا شکریہ! از: محمد برھان الدین قاسمی ایڈیٹر: ایسٹرن کریسنٹ،…

Eastern

مرکز المعارف ممبئی میں انگریزی تقریری مقابلے کا انعقاد

مرکز المعارف ممبئی میں انگریزی تقریری مقابلے کا انعقاد حالات کے حساب…

Eastern

نئے سال کا آغاز محاسبہ نفس اور منشور حیات کیساتھ کریں

نئے سال کا آغاز محاسبہ نفس اور منشور حیات کیساتھ کریں محمد…

Eastern

Quick LInks

تبلیغی جماعت کے نادان دوست

تبلیغی جماعت کے نادان دوست ازـــــ مدثر احمد قاسمی تبلیغی جماعت ایک…

Eastern

جمعرات 20 صفر 1447هـ 14-8-2025م

یومِ آزادی، مسلمانوں کی قربانی اور حالیہ مسائل ازــــــ ڈاکٹر عادل عفان…

Eastern

جناب محمد راوت صاحبؒ، امیرِ تبلیغی جماعت، زامبیا

جناب محمد راوت صاحبؒ، امیرِ تبلیغی جماعت، زامبیا بقلم: خورشید عالم داؤد قاسمی…

Eastern